سرینگر (جموں و کشمیر): 16 مارچ 1846 کو امرتسر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے درمیان ’’بیعنامہ امرتسر‘‘ پر دستخط ہوئے جس کے تحت کشمیر کو ڈوگرہ سلطنت کا حصہ بنایا گیا۔ تاریخ کے اس بدنام معاہدے کے تحت راجہ گلاب سنگھ نے وادی کشمیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے 75 لاکھ نانک شاہی روپیوں میں خریدا۔ یہ لاہور دربار کی کرنسی تھی جس کا معاہدے سے قبل کشمیر پر قبضہ تھا۔
معاہدے سے قبل گلاب سنگھ لداخ اور جموں خطوں کا حکمران تھا۔ کشمیر خریدنے کے بعد انکی سلطنت میں توسیع ہوئی۔ دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ساری سرزمین بشمول چھمب اور ما سوائے لوہول کے گلاب سنگھ کی مملکت بن گئی۔ گلاب سنگھ پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ کمپنی کا وفادار رہے اور ہرسال اس کے اعتراف میں ایک گھوڑا، ایک درجن پشمینہ بکریاں اور تین جوڑے شاہ توس کے شالوں کا تحفہ کمپنی کو روانہ کرے۔
کشمیر میں شخصی راج، ظلم و ستم کی عبارت بن گیا۔ لوگوں سے بیگار لیا جانے لگا اور ٹیکس کی حصولیابی سے انکی کمر توڑ دی گئی۔ حکمران پشت در پشت بدلتے گئے لیکن ظلم و جبر میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ جولائی 1931 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف پہلی بار کشمیر میں احتجاج ہوا۔ مظاہروں کی ابتدا سرینگر کی جامع مسجد میں ایک افغان شہری عبد القدیر کی تقریر کے بعد ہوئی۔ عبد القدیر نے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی، انہیں بعد میں گرفتار کیا گیا۔
13 جولائی کو عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت سینٹرل جیل کے احاطے میں طے تھی۔ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہوئے، ہری سنگھ کے سپاہیوں نے گولیاں چلائیں اور 22 افراد ہلاک کیے۔ اس قتل عام کے بعد شخصی نظام کے خلاف منظم تحریک شروع ہوئی، شیخ محمد عبداللہ اسی تحریک کے لیڈر کے طور منظر عام پر نمودار ہوئے۔
شیح عبداللہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی تھی اور محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے تھے۔1931کے بعد وہ عوامی تحریک کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ 1932 میں شیخ عبداللہ نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ اس کا اہم مقصد کشمیری عوام کو مہاراجہ کی جابرانہ حکومت سے آزادی دلانا تھا۔ سنہ 1939 میں اس پارٹی کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرکے سیکولر بنا دیا گیا۔
سنہ 1946 میں نیشنل کانفرنس نے ’’کشمیر چھوڑو‘‘ تحریک کا آغاز کیا اور امرتسر ٹریٹی کو منسوخ کرنے اور کشمیری عوام کی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ اس کے ردعمل میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ سنہ 1947 میں برصغیر دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہوا اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو ملک وجود میں آئے۔ تقسیم کے وقت مہاراجہ ہری سنگھ کی خواہش تھی کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ شمولیت کے بجائےایک آزاد ریاست کے طور پر رہیں۔ لیکن وسائل سے مالا مال اور جغرافیائی اہمیت کی حامل ریاست کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں ہی کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ دونوں ہی اس کا الحاق اپنے ساتھ چاہتے تھے۔
سنہ 1947 میں ہی پاکستانی قبائلیوں نے جموں و کشمیر میں در اندازی کی جس سے نمٹنے کے لیے راجا ہری سنگھ نے بھارت سے مدد طلب کی۔ بھارت نے راجا ہری سنگھ کی مدد اس شرط پر کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کریں، اور اس طرح راجا نے بھارت کے ساتھ ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یعنی بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دسخط کر دیے۔
اس معاہدے کے تحت یہ شرط بھی تھی کہ محکمہ دفاع، خارجی امور اور مواصلاتی نظام کے علاوہ بھارت کشمیر کے دیگر معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک مختصر جنگ کے بعد سنہ 1948 میں بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے گيا جہاں کشمیر میں ’’رائے شماری‘‘ کی بات کہی گئی اور بھارت نے اس کا وعدہ بھی کیا۔ اسی برس راجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر میں ایک عبوری حکومت کا قیام کیا اور شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
آزادی کے فوری بعد 1948 میں پہلی بار مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا تھا اور ہ سلسلہ 1965 میں ہونے والی بھارت - پاک جنگ تک بدستور جاری رہا۔ جنگ کے بعد اقوام متحدہ میں ایک سمجھوتہ ہوا جس کے سبب مسئلہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی شمولیت معمولی سطح تک ہی رہی۔
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان 1972 میں شملہ معاہدہ طے پایا جس میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے دو طرفہ فریم ورک اپنانے پر زور دیا گیا اور اقوام متحدہ کو دور رکھنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس دوران 1948 سے 1971 کے درمیان اس مسئلے پر اقوام متحدہ میں 23 قراردادیں منظور ہوئیں، جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعہ حل کرنا تھا۔
جنوری 1948 میں بھارت نے پہلی بار اقوام متحدہ کے آرٹیکل 35 (چیپٹر چار) کے تحت پاکستان پر قبائلی حملہ آوروں کو مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے شکایت درج کروائی تھی۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں پورے کشمیر پر اپنا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ چونکہ راجا ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے اس لیے قانوناً سارا کشمیر بھارت کا ہوا۔
اس کے دو ہفتے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ میں اپنے جواب میں کہا کہ پاکستان نے کسی بھی دراندازی یا قبایئلیوں کی کسی طرح سے مدد نہیں کی ساتھ ہی پاکستان نے بھارت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کا ابتدائی دور میں ہی گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے نمائندوں کے موقف کو جاننے کے بعد اقوام متحدہ کے سکیوریٹی کاؤنسل نے 17 جنوری 1948 کو مسئلہ کشمیر پر پہلی قرار داد پاس کی اور دونوں ملکوں کو ہدایت دی کہ وہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
اس مسئلے پر ثالثی کے لیے اقوام متحدہ کے جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے قیام کے لیے دونوں ملک راضی ہوئے۔ سیکورٹی کاؤنسل نے بیلجیئم کی تین رکنی ٹیم کو اس مسئلے کو قریب سے سمجھنے کے لیے قائم کیا۔ تین دن بعد یعنی 20 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر دونوں ملکوں میں ثالثی اور تحقیقات کے لئے یونائٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان کا قیام کیا۔
اگلے ہی دن یعنی 21 جنوری 1948 کو امریکہ اور برطانیہ کی سربراہی میں سکیورٹی کاؤنسل نے ایک اور قرار داد پاس کی جس میں یو این سی آئی پی کے اراکین کی تعداد بڑھا کر تین سے پانچ کر دی گئی۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین دشمنیوں کو ختم کرنے، تمام پاکستانی افواج اور قبائلیوں اور ہندوستانی فوج کی بڑی تعداد کو جموں و کشمیر سے واپسی کے ساتھ ہی مہاجرین کی وطن واپسی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جمہوریت کے قیام کے لیے کشمیری عوام کے مطابق رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران ریاست میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کی باتیں بھی اٹھتی رہیں۔ اسی برس تین جون کو اقوام متحدہ میں ایک اور قرار داد منظور کی گئی اور 21 جون کو قیام کی گئی یو این سی آئی پی کی تمام باتوں پر عمل کرنے کو کہا گیا۔
پانچ جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے رائے شماری کے لیے ایک نیا پلان تیار کیا جس میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر پوری طرح سے اقوام متحدہ کے جانب سے مقرر کردہ مبصرین کی زیر نگرانی رائے شماری ہوگی۔ ایسا اس لئے کیا گیا کیوںکہ پاکستان کو ڈر تھا کہ رائے شماری بھارت کے حق میں جائےگی کیوں کہ اس وقت ریاست کے کارگزار صدر شیخ عبداللہ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بہت قریبی تھے اور ریاست میں ان سے بڑا کوئی دوسرا رہنما نہیں تھا۔
سنہ 1949 میں اقوام متحدہ کے صدر جنرل اے جی ایل میک نوٹن نے دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی کوشش کی تا ہم وہ ناکام رہے۔ اس دوران انہوں غیر جانبدارانہ طریقے سے رائے شماری کرانے کے لئے کشمیر میں افواج کی تعداد میں کمی سمیت کئی تجاویز پیش کیں تاہم بھارت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
میک نوٹن کی ناکامی کے بعد یو این سی پی آئی میں اوین ڈکسن کو 1950 میں اقوام متحدہ میں نمائندہ مقرر کیا گیا۔ دنوں ملکوں کے عہدیداروں سے ملنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہونچے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آرمی کے انخلاء سے متعلق سمجھوتہ ہو پانا بے حد مشکل ہے۔ جس کے بعد ڈکسن نے دوسری کئی تجاویز کے ساتھ پورے جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائے جانے یا صرف حساس علاقوں میں رائے شماری کرائے جانے کی وکالت کی۔ لیکن بھارت اور پاکستان ایک بار پھر کسی نتیجے پر پہونچنے میں ناکام رہے۔
ڈکسن کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے کئی کوششیں کی گئیں تاہم کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس دوران مسئلہ کشمیر کو پاکستان مسلسل اقوام متحدہ میں اٹھاتا رہا لیکن بھارت پاکستان کے درمیان 1965 جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی مداخلت پہلے سے کافی کم ہو گئی۔ اس سے قبل 1962 میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں ایک بار پھر زیر بحث آيا لیکن روس کی ’ویٹو‘ طاقت کی وجہ سے اس دفعہ کوئی قرار داد پاس نہیں ہو سکی۔
سنہ 1965 کی جنگ کے بعد روس نے ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان 10 جنوری کو تاشقند سمجھوتہ ہوا۔ اسی برس دنیا کی دو سپر پاور روس اور امریکہ کے دباؤ میں 29 ستمبر کو بھارت اور پاکستان اقوام متحدہ کی حمایت والی جنگ بندی پر متفق ہوئے۔ سنہ 1960 سے 70 کے درمیان بھارت نے کشمیر مسئلہ کو نئے سرے سے متعارف کرنے اور عالمی اور اقوام متحدہ کے مداخلت کو اس سے باہر رکھنے کی کوششیں کیں۔
مسئلہ کشمیر پر آخری قرار داد 1971 کی بھارت پاکستان جنگ کے بعد ہوئي تھی۔ اسی جنگ کے بعد ایک نیا پڑوسی ملک وجود میں آیا۔ اس جنگ کے بعد جو معاہدہ ہوا تھا وہ ’’شملہ امن معاہدہ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس معاہدے کے بعد سے بھارت کشمیر مسئلے کو دنیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سےتقریبا دور رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
شملہ معاہدے کے بعد سے ہندوستان کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر نظر ثانی کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیریوں کا اصرار ہے کہ اس دلیل کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں قانونی طور پر پابند نہیں ہیں اور اقوام متحدہ پر فعال کردار ادا کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
اس دوران کشمیر مسئلے پر چین کے کردار کی باتیں بھی اٹھتی رہی ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد چین نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کو خط کے ذریعہ اس مسئلے پر مزید جانکاری طلب کی تھی۔ بعض بھارتی مبصرین کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اس وقت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کاؤنسل تک لے کر جانا ایک مثبت سوچ نہیں ہے کیوں کہ چین کا موقف پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر کی کل علاقے کا تقریبا 20 حصہ چین کے قبضے میں تقریبا 45 فیصد بھارت جبکہ 35 فیصد حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔