سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے جمعہ کو حیدر پورہ متنازع تصادم آرائی کے دوران مارے گئے عامر لطیف ماگرے کی لاش نکالنے سے متعلق معاملے پر سماعت کی۔ فریقین کی دلائل سنے کے بعد چیف جسٹس پنکج میتھل اور جسٹس جاوید اقبال وانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عامر ماگرے کے گھر والوں کو اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اجازت دی۔ JKHC on Amir Magray Case
بدھ کے روز معاملے پر سماعت مکمل کرنے کے بعد عدالت نے آج اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ "عامر کی لوحقین کو کپواڑہ ضلع میں واقع قبرستان جہاں عامر ماگرے دفن ہیں، میں جاکر فاتحہ خوانی انجام دینے کی اجازت ہے۔ عدالت نے عامر ماگرے کے اہل خانہ کے دس افراد کو وہاں جانے کی اجازت دی اور وہ بھی انتظامیہ سے وقت اور تاریخ حاصل کرنے کے بعد۔" وہیں عدالت نے سنگل حج کی جانب سے عامر کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے بطور معاوضہ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
وہیں اس فیصلے کے بعد درخواست گزار لطیف ماگرے کی پیروی کر رہی ایڈوکیٹ دیپیکا رجوات نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "ہم عدالت کے فیصلے سے مطمئین نہیں ہیں۔ اب ہم بغیر تاخیر کے کل یعنی ہفتہ کے روز عدالت عظمٰی کا رخ کریں گے۔"
واضح رہے کہ بدھ کے روز ہوئی معاملے پر سماعت کے دوران جموں و کشمیر انتظامیہ کی پیروی کر رہے ایڈوکیٹ جنرل ڈی سی رینا نے عدالت کو بتایا تھا کہ سنگل بینچ کے جج سے مشاہدے میں غلطی ہوئی تھی۔ عامر ماگرے کی لاش کو صرف اس لیے دینے سے انکار کیا گیا تھا کہ ان کی لاش کو نکالنے کے لیے کوئی عوامی دباؤ نہیں بنایا گیا تھا اور ان کے ساتھ صرف اس لیے امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا کہ وہ ایک دوردراز کا علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔" اے جی نے دعویٰ کیا کہ متوفی کی لاش کو صرف امن و امان کے مسائل کے خدشے کے پیش نظر واپس نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید دلیل دے کر کہا کہ درخواست گزار کے بیٹے کا معاملے ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی لاشیں پہلے نکال کر ان کے اہل خانہ کے حوالے کی گئی تھیں۔ انہوں نے معاوضہ کے خلاف دلیل دے کر کیا کہ پانچ لاکھ روپے کے معاوضے کا حکم سنگل بنچ نے دیا تھا۔ یہ ایک ایسی نظیر قائم کرے گا جس میں مستقبل میں جب بھی کوئی عسکریت پسند یا اوور گراؤنڈ ورکر تصادم آرائی میں ہلاک کیا جائے گا تو قانونی چارہ جوئی کے دروازے کھل جائیں گے۔"
واضح رہے کہ گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ نے لطیف ماگرے کی جانب سے دائر کردہ اسپیشل لیو پٹیشن پر غور کیا تھا جس میں 3 جون کو ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ کے ڈویژن بنچ کے ذریعے منظور کیے گئے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس نے ان کے بیٹے کی لاش کو نکالنے پر روک لگا دی تھی۔
سپریم کورٹ کے سامنے، سینیئر ایڈوکیٹ آنند گروور نے عرضی گزار کی طرف سے پیش ہوکر عرض کیا کہ وہ قبر کشائی کے لیے زور نہیں دے رہے تھے بلکہ اپنے بیٹے کی مذہبی عقائد کے مطابق آخری رسومات ادا کرنے اور معاوضے کی ادائیگی کے لیے ریلیف کی پیروی کررہے تھے۔
گروور نے ماگرے کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ میت کی آخری رسومات ادا کرنے کا حق اس کے لواحقین کا ہے نہ کہ ریاست کو اس کا حق ہے۔ انہوں نے بنچ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ 5 لاکھ روپے کے معاوضے کے حوالے سے ہدایت پر بھی غور کرے جسے سنگل جج نے منظور کیا تھا۔
اس سے قبل جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس وسیم صادق نرگل کی ڈویژن بنچ نے 3 جون کو جسٹس سنجیو کمار کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ جسٹس کمار نے اپنے فیصلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ عامر لطیف ماگرے کی لاش کو نکالیں۔
مزید پڑھیں:
سنگل جج نے انتظامیہ کو درخواست گزار کو 5 لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، اگر لاش انتہائی خراب ہو اور واپس پہنچانے کی حالت میں نہ ہو۔ سنگل جج نے مدعا علیہان کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ متوفی کے مذہبی عقیدے کے مطابق میت کو درخواست گزار کے گاؤں پہنچانے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ سنگل بنچ کے حکم سے ناراض جموں و کشمیر انتظامیہ نے اسے ڈویژن بنچ کے سامنے چیلنج کیا تھا جس نے عبوری ریلیف کے طور پر سنگل بنچ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔