ETV Bharat / state

مسرت زہرا پر مقدمہ، صحافیوں کا آن لائن احتجاج - Kashmir

کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر وادی کے صحافیوں نے اپنی ساتھی مسرت زہرا کے خلاف جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کیے جانے کے بعد احتجاج کرنے کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔

masrat zahra
مسرت زہرا پر مقدمہ، صحافیوں کا آن لائن احتجاج
author img

By

Published : Apr 20, 2020, 8:04 PM IST

لاک ڈاون اور بندشوں کے پیش نظر کشمیری صحافی سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں اترے۔ تاہم سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے آن لائن اپنا احتجاج درج کیا اور زہرا کے خلاف کارروائی کی مذمت کی۔

سرینگر سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سائبر پولیس نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک اور ٹویٹر پر 'ملک مخالف اور غیر قانونی مواد' پوسٹ کرنے پر یو اے پی اے (UAPA) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مسرت زہرا پر مقدمہ، صحافیوں کا آن لائن احتجاج

پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے جہاں سرینگر کے ایوان صحافت نے بیان جاری کرتے ہوئے مسرت اور دیگر کشمیری صحافیوں کے خلاف پولیس کی جانب سے کی جارہی 'زیادتیوں' کو 'ناقابل برداشت' بتایا اور وزیر داخلہ امت شاہ، لیفٹنٹ گورنر جی سی مرمو اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ کو اس ضمن میں کارروائی کرنے کی گزارش کی۔

وہیں وادی کے صحافی سوشل میڈیا پر مسرت زہرا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔

وادی کے اکثر صحافی ٹوئٹر پر 'صحافت جرم نہیں ہے' اور 'ہم مسرت کے ساتھ کھڑے ہیں' جیسے ٹویٹ کر کے اپنا احتجاج درج کر رہے ہیں۔ کچھ صحافیوں نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر اپنی پروفائل فوٹو بھی تبدیل کی جس کا مقصد بقول ان کے 'وادی کی صحافیوں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنا' ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وادی کے سینئر صحافی اور کشمیر ایوان صحافت کے ایگزیکٹو ممبر گوہر گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’وادی میں کام کر رہے صحافیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے یہ سب چلتا آ رہا ہے۔ صحافیوں کو ڈرایا، دھمکایا جا رہا ہے ان پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں تاہم اس سب کے باوجود صحافی چپ نہیں بیٹھیں گے۔ ان کا کام ہے سچ سامنے لانا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد صحافیوں کو پولیس کی جانب سے خوفزدہ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایوان صحافت نے اعلیٰ حکام سے گزارش کی ہے کہ مسرت زہرا اور دیگر صحافیوں کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور درج مقدمہ واپس لیا جائے۔‘‘

وہیں ایک اور مقامی صحافی شمس عرفان کا کہنا تھا کہ ’’کورونا وائرس اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑک کے بجائے ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر احتجاج کرنا بہتر سمجھا۔ ہمارا مقصد بس یہ ہے کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں اور ہم سب صحافی مسرت زہرہ کے ساتھ اس وقت شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی میں صحافیوں پر جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے لاٹھیاں بھی برسائی گئیں، مار پیٹ بھی ہوئی، پیلٹ بھی داغے گئے اور مقدمات بھی درج کیے گئے۔ اس ضمن میں وادی کے سینئر صحافی نصیر گنائی، پیرزادہ عاشق، اذان جاوید، انیس زرگر، شاہد خان اور اب مسرت زہرا کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

لاک ڈاون اور بندشوں کے پیش نظر کشمیری صحافی سڑکوں پر احتجاج کرنے نہیں اترے۔ تاہم سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے آن لائن اپنا احتجاج درج کیا اور زہرا کے خلاف کارروائی کی مذمت کی۔

سرینگر سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سائبر پولیس نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک اور ٹویٹر پر 'ملک مخالف اور غیر قانونی مواد' پوسٹ کرنے پر یو اے پی اے (UAPA) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مسرت زہرا پر مقدمہ، صحافیوں کا آن لائن احتجاج

پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے جہاں سرینگر کے ایوان صحافت نے بیان جاری کرتے ہوئے مسرت اور دیگر کشمیری صحافیوں کے خلاف پولیس کی جانب سے کی جارہی 'زیادتیوں' کو 'ناقابل برداشت' بتایا اور وزیر داخلہ امت شاہ، لیفٹنٹ گورنر جی سی مرمو اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ کو اس ضمن میں کارروائی کرنے کی گزارش کی۔

وہیں وادی کے صحافی سوشل میڈیا پر مسرت زہرا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔

وادی کے اکثر صحافی ٹوئٹر پر 'صحافت جرم نہیں ہے' اور 'ہم مسرت کے ساتھ کھڑے ہیں' جیسے ٹویٹ کر کے اپنا احتجاج درج کر رہے ہیں۔ کچھ صحافیوں نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر اپنی پروفائل فوٹو بھی تبدیل کی جس کا مقصد بقول ان کے 'وادی کی صحافیوں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنا' ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وادی کے سینئر صحافی اور کشمیر ایوان صحافت کے ایگزیکٹو ممبر گوہر گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’وادی میں کام کر رہے صحافیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے یہ سب چلتا آ رہا ہے۔ صحافیوں کو ڈرایا، دھمکایا جا رہا ہے ان پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں تاہم اس سب کے باوجود صحافی چپ نہیں بیٹھیں گے۔ ان کا کام ہے سچ سامنے لانا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد صحافیوں کو پولیس کی جانب سے خوفزدہ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایوان صحافت نے اعلیٰ حکام سے گزارش کی ہے کہ مسرت زہرا اور دیگر صحافیوں کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور درج مقدمہ واپس لیا جائے۔‘‘

وہیں ایک اور مقامی صحافی شمس عرفان کا کہنا تھا کہ ’’کورونا وائرس اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑک کے بجائے ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر احتجاج کرنا بہتر سمجھا۔ ہمارا مقصد بس یہ ہے کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں اور ہم سب صحافی مسرت زہرہ کے ساتھ اس وقت شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی میں صحافیوں پر جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے لاٹھیاں بھی برسائی گئیں، مار پیٹ بھی ہوئی، پیلٹ بھی داغے گئے اور مقدمات بھی درج کیے گئے۔ اس ضمن میں وادی کے سینئر صحافی نصیر گنائی، پیرزادہ عاشق، اذان جاوید، انیس زرگر، شاہد خان اور اب مسرت زہرا کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.