’’گزشتہ برس 5 اگست سے حراست میں لیے گئے علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے تقریبا 500 لیڈران کو رہا کر دیا گیا ہے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے ایک قومی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کیا۔
سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’کم سے کم 504 علیحدگی پسندوں، جن میں حریت کانفرنس اور جماعت اسلامی کے کارکنان بھی شامل ہیں،کی جانب سے اچھے برتاؤ کے عہد نامے پر دستخط کیے جانے کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’5 اگست کے بعد 350 پتھر بازوں اور علیحدگی پسندوں کو جموں کشمیر سے باہر ملک کی دیگر جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ تاہم اب صرف پچاس ساٹھ افراد ہی زیرحراست ہیں، دیگر رہا کیے گئے ہیں۔‘‘
اچھے برتاؤ کے عہد نامے کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اس عہدنامے کے مطابق وہ افراد امن و امان قائم رکھیں گے اور کسی بھی قسم کی شدت پسندی یا علیحدگی پسند سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
کتنے افراد حراست میں لیے گئے تھے؟ اس سوال کے جواب میں سنگھ نے کہا کہ ’’ابتدا میں 5500 نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم چار دن بعد ان کی کاؤنسلنگ اور والدین کی جانب سے یقین دہانی کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے مزید 1200 نوجوانوں کے خلاف معاملے درج ہیں جن پر کارروائی چل رہی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’144 نابالغ بھی نظر بند کیے گئے تھے۔ ان کے خلاف بھی شدت پسند سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزامات تھے۔ آج سرینگر کے ریمانڈ ہوم میں صرف 17 نابالغ رکھے گئے ہیں باقی کو واپس اپنے گھر بھیج دیا گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ برس دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے نوجوانوں، علیحدگی پسند رہنماؤں، سیاسی لیڈران اور کئی نابالغ بچوں کو حراست میں لیا تھا۔ ان میں سے بعض کو اپنی ہی رہائش گاہوں میں نظر بند رکھا گیا تھا، بعض کو جموں کشمیر کی جیلوں میں اور متعدد کو ریاست کے باہر دیگر جیلوں میں قید کیا گیا تھا۔