نعیم اختر گزشتہ برس 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے نظر بند ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ان پر پی ایس اے کا اطلاق کر کے بغیر عدالتی سماعت کے تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک نظر بند رکھنے کا فیصلہ لیا ہے۔
انہیں سرینگر کے گُپکار روڑ پر واقع سرکاری رہائش گاہ (ایم 5) منتقل کیا گیا ہے۔
نعیم اختر جموں و کشمیر کے سابق وزیر تعلیم رہ چُکے ہیں اور وہ متنازعہ بیانات کے لیے جانے تھے۔ بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ٹوٹنے کے بعد بی جے پی نے نعیم اختر پر بھاری رشوت ستانی کا الزام لگایا تھا۔
واضح رہے کہ 6 فروری کے روز انتظامیہ نے نظر بند ہند نواز سیاسی رہنما علی محمد ساگر، سرتاج مدنی اور سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی پر پی ایس اے کا اطلاق کرکے انہیں 3 ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے مزید نظر بند رکھنے کا حکم جاری کیا۔ علی محمد ساگر، محبوبہ مفتی کے مامو سرتاج مدنی کو ایم ایل اے ہاسٹل سے منتقل کر کے گپکار روڑ پر واقع ان کی رہائش گاہ لایا گیا ہے۔
عمر عبداللہ کے والد و سرینگر سے موجودہ رُکن پارلیمان فاروق عبداللہ پر گزشتہ برس 16 اکتوبر کے روز پی ایس اے عائد کیا گیا ہے اور وہ بھی مسلسل نظر بند ہیں
واضح رہے گذشتہ برس 5 اگست کو جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیا تھا، جس کے بعد سخت ترین بندشوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ محبوبہ مفتی اور کئی سابق کایبنہ وزرا کو مرکزی حکومت کے فیصلے چند گھنٹے قبل یعنی 4 اور پانچ اگست کی درمیانی شب کو نظر بند کر دیا گیا۔
مظاہروں اور سنگین ردعمل کے خدشے تقریبا 4 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سیاسی، مذہبی، علیحدگی پسند رہنماؤں سمیت وکلا و تاجر بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدگان میں سے سینکٹروں افراد کو ملک کی دیگر ریاستوں کے جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
گرچہ گرفتار شدہ افراد و سیاسی رہنماؤں میں سے بیشتر کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق اور سید علی شاہ گیلانی مسلسل نظر بند ہیں۔
دو روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں ان تینوں سابق وزرائے اعلیٰ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے۔ نریندر مودی نے ان رہنماؤں کی گرفتاری کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کے اس بیان کے بعد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا ان رہنماؤں کی جلد رہائی کے سلسلے میں کوئی اقدام اٹھانا نہین چاہتی ہے۔