ETV Bharat / state

'بے روزگاری اور بدانتظامی جموں وکشمیر کا نیا معمول' - نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان

نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی موجودہ سیکورٹی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، مل ٹنسی کے گراف میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، تعمیر و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں، اقتصادی بدحالی نے یہاں کے لوگوں کو مکمل طو رپر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بے روزگارنوجوان کی تعداد حد سے تجاوز کرگئی ہے، عوامی حکومت کی غیر موجودگی اور انتظامی انتشار ور خلفشار کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون
نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون
author img

By

Published : Jun 24, 2020, 11:06 PM IST

موصوف بدھ کے روز نیشنل کانفرنس پارٹی ہیڈکوارٹر واقع نوائے صبح کمپلیکس پر ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر کے علاوہ سینئر لیڈران پیر آفاق احمد، سید توقیر احمد، سید رفیق شاہ، ارشاد رسول کار، شوکت احمد وٹالی کے علاوہ دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔

اکبر لون نے کہا کہ 5 اگست کے بقول ان کے غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلے کے بعد یہاں کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوا اور کشمیر کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نہ صرف 5 اگست کے 'غیر دانشمندانہ فیصلوں' کو منسوخ کرنا چاہئے بلکہ جموں وکشمیر کی معیشت کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کرنے کے لئے بھی مالی پیکیج کا اعلان کر چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی مرکزی حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔

ڈیلی ویجروں، کیجول لیبروں اور دیگر عارضی ملازمین کی حالت زار پر تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے محمد اکبر لون نے کہا کہ جموں و کشمیر کے 60 ہزار عارضی ملازمین سالہاسال سے اپنی مستقلی کے منظر ہیں۔ ان عارضی ملازمین کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ عارضی ملازمین کی مستقلی ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے جنگی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کی سربراہی والی حکومت نے اگرچہ ان عارضی ملازمین کی مستقلی کے لئے اقدامات کرنے کی حتمی کوشش کی لیکن مخلوط سرکار میں شامل اتحادیوں نے اس میں مختلف اڑچنیں پیدا کیں۔

انہوں نے عارضی ملازمین کی فوری مستقلی کے لئے ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے میں کشمیر ہاﺅس کی تقسیم کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو ایسے اقدامات کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اُس وقت تک ایسے فیصلوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے جب تک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نہیں آجاتا۔

کشمیر ہاﺅس کی لداخ اور جموں وکشمیر میں تقسیم کو بھی سراسر ناانصافی قرار دیتے میر نے کہا کہ لداخ کی آبادی اڑھائی لاکھ ہے جبکہ جموں وکشمیر کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر ہاﺅس کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ مرکز کو اگر تقسیم کا یہی پیمانہ رکھنا ہے تو پھر قرضوں کو بھی برابر تقسیم کیا جانا چاہئے تھا۔

ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے کہا کہ ہم ایسے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس فیصلے کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

موصوف بدھ کے روز نیشنل کانفرنس پارٹی ہیڈکوارٹر واقع نوائے صبح کمپلیکس پر ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر کے علاوہ سینئر لیڈران پیر آفاق احمد، سید توقیر احمد، سید رفیق شاہ، ارشاد رسول کار، شوکت احمد وٹالی کے علاوہ دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔

اکبر لون نے کہا کہ 5 اگست کے بقول ان کے غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلے کے بعد یہاں کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوا اور کشمیر کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نہ صرف 5 اگست کے 'غیر دانشمندانہ فیصلوں' کو منسوخ کرنا چاہئے بلکہ جموں وکشمیر کی معیشت کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کرنے کے لئے بھی مالی پیکیج کا اعلان کر چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی مرکزی حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔

ڈیلی ویجروں، کیجول لیبروں اور دیگر عارضی ملازمین کی حالت زار پر تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے محمد اکبر لون نے کہا کہ جموں و کشمیر کے 60 ہزار عارضی ملازمین سالہاسال سے اپنی مستقلی کے منظر ہیں۔ ان عارضی ملازمین کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ عارضی ملازمین کی مستقلی ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے جنگی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کی سربراہی والی حکومت نے اگرچہ ان عارضی ملازمین کی مستقلی کے لئے اقدامات کرنے کی حتمی کوشش کی لیکن مخلوط سرکار میں شامل اتحادیوں نے اس میں مختلف اڑچنیں پیدا کیں۔

انہوں نے عارضی ملازمین کی فوری مستقلی کے لئے ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے میں کشمیر ہاﺅس کی تقسیم کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو ایسے اقدامات کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اُس وقت تک ایسے فیصلوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے جب تک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نہیں آجاتا۔

کشمیر ہاﺅس کی لداخ اور جموں وکشمیر میں تقسیم کو بھی سراسر ناانصافی قرار دیتے میر نے کہا کہ لداخ کی آبادی اڑھائی لاکھ ہے جبکہ جموں وکشمیر کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر ہاﺅس کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ مرکز کو اگر تقسیم کا یہی پیمانہ رکھنا ہے تو پھر قرضوں کو بھی برابر تقسیم کیا جانا چاہئے تھا۔

ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے کہا کہ ہم ایسے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس فیصلے کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.