ETV Bharat / state

انگریزی زبان میں 82 سے زائد نظمیں تحریر کرنے والا کمسن لڑکا

author img

By

Published : Jun 16, 2021, 4:23 PM IST

Updated : Jun 16, 2021, 4:33 PM IST

عبداللہ بن زبیر اپنی والدہ سے متاثر ہوکر لکھنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے والدہ کی رہبری اور رہنمائی میں لکھنے کا آغاز کیا۔ تب سے لے کر یہ اپنے خیالات، حالات و واقعات اور ارد گرد کے ماحول کو اپنی نظموں کے ذریعے ظاہر کرتے آرہے ہیں۔

ننھا مصنف
ننھا مصنف

بارہ سالہ عبداللہ بن زبیر کی ذہانت، دلچسپی اور صلاحیت دیگر بچوں سے زرا مختلف ہے۔ عصر حاضر میں جہاں اس عمر کے بچے موبائل گیمز اور کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں وہیں سرینگر کے چھانہ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے عبداللہ انگریزی زبان میں نظمیں لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

اسی منفرد دلچسپی کی وجہ سے الگ الگ مضوعات پر اس ہونہار کی لکھی گئیں نظمیں No Place for Good کتاب کی صورت میں محض 12 سال کی کم عمر میں ہی سامنے آئی ہے۔

ننھا مصنف

علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے عبداللہ بن زبیر اپنی والدہ سے متاثر ہوکر لکھنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے والدہ کی رہبری اور رہنمائی میں لکھنے کا آغاز کیا۔ تب سے لے کر یہ اپنے خیالات، حالات و واقعات اور ارد گرد کے ماحول کو اپنی نظموں کے ذریعے ظاہر کرتے آرہے ہیں۔

آٹھویں جماعت کے طالب علم نے کم عمری میں ہی انگریزی زبان میں 82 سے زائد نظمیں تحریر کی ہیں۔ جن میں Three monkeys, Cry, Education or frustration, Death, Propaganda وغیرہ نظمیں قابل ذکر ہیں۔ عبداللہ کی انگریزی نظموں پر مبنی تصنیف منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی عبداللہ وادی کشمیر کے کم عمر انگریزی شاعر بن گئے ہیں۔

کالم اور نظمیں لکھنے کے علاوہ یہ فلم میکنگ میں بھی بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس اسکول کی جانب سے منعقد کئے گئے فلم میکنگ مقابلے میں "لاک ڈاؤن پھر سے" عنوان پر بنائی گئی شاٹ فلم کمپٹیشن میں عبداللہ بن زبیر نے اول پوزیش حاصل کی۔

عبداللہ کہتے ہیں کہ کسی بھی اچھے موضوع کو کاغذ پر اتارنے سے قبل موضوع کے ہر ایک گوشے پر نظر ہونی چاہیے تب جاکر اس پر بہتر اور بامعنی طریقے سے لکھا جاسکتا ہے اور لکھنے کی خاطر پڑھنے اور سنے کے علاوہ اچھی سوچ کی ضرورت ہے۔عبداللہ کے والد پیشہ سے ڈاکٹر ہیں جبکہ والدہ ایسوسیٹ پروفیسر کے بطور کشمیر یونیورسٹی میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

عبداللہ کے والدین نے اس موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین کو اپنے بچوں کے خوابوں کی تکمیل میں راہ ہموار کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر مستقبل کی اور گامزن ہوسکے۔ادھر چھوٹا بھائی اوصاف الرحمان ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے بڑے بھائی عبداللہ سے تحریک پاکر یہ بھی کچھ وقت سے کالم لکھ رہے ہیں اور حوصلہ افزائی کے طور اس کی بھی کئی تحریریں مقامی روز نامے میں شائع ہوئی ہیں۔

وادی کشمیر کے بچوں میں ہنر، قابلیت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے البتہ عبداللہ جسے ہونہار بچوں کو موقع کی تلاش ہوتی ہے جوکہ انہیں فراہم کیا جانا چاہیے۔

بارہ سالہ عبداللہ بن زبیر کی ذہانت، دلچسپی اور صلاحیت دیگر بچوں سے زرا مختلف ہے۔ عصر حاضر میں جہاں اس عمر کے بچے موبائل گیمز اور کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں وہیں سرینگر کے چھانہ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے عبداللہ انگریزی زبان میں نظمیں لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

اسی منفرد دلچسپی کی وجہ سے الگ الگ مضوعات پر اس ہونہار کی لکھی گئیں نظمیں No Place for Good کتاب کی صورت میں محض 12 سال کی کم عمر میں ہی سامنے آئی ہے۔

ننھا مصنف

علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے عبداللہ بن زبیر اپنی والدہ سے متاثر ہوکر لکھنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے والدہ کی رہبری اور رہنمائی میں لکھنے کا آغاز کیا۔ تب سے لے کر یہ اپنے خیالات، حالات و واقعات اور ارد گرد کے ماحول کو اپنی نظموں کے ذریعے ظاہر کرتے آرہے ہیں۔

آٹھویں جماعت کے طالب علم نے کم عمری میں ہی انگریزی زبان میں 82 سے زائد نظمیں تحریر کی ہیں۔ جن میں Three monkeys, Cry, Education or frustration, Death, Propaganda وغیرہ نظمیں قابل ذکر ہیں۔ عبداللہ کی انگریزی نظموں پر مبنی تصنیف منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی عبداللہ وادی کشمیر کے کم عمر انگریزی شاعر بن گئے ہیں۔

کالم اور نظمیں لکھنے کے علاوہ یہ فلم میکنگ میں بھی بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس اسکول کی جانب سے منعقد کئے گئے فلم میکنگ مقابلے میں "لاک ڈاؤن پھر سے" عنوان پر بنائی گئی شاٹ فلم کمپٹیشن میں عبداللہ بن زبیر نے اول پوزیش حاصل کی۔

عبداللہ کہتے ہیں کہ کسی بھی اچھے موضوع کو کاغذ پر اتارنے سے قبل موضوع کے ہر ایک گوشے پر نظر ہونی چاہیے تب جاکر اس پر بہتر اور بامعنی طریقے سے لکھا جاسکتا ہے اور لکھنے کی خاطر پڑھنے اور سنے کے علاوہ اچھی سوچ کی ضرورت ہے۔عبداللہ کے والد پیشہ سے ڈاکٹر ہیں جبکہ والدہ ایسوسیٹ پروفیسر کے بطور کشمیر یونیورسٹی میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

عبداللہ کے والدین نے اس موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین کو اپنے بچوں کے خوابوں کی تکمیل میں راہ ہموار کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر مستقبل کی اور گامزن ہوسکے۔ادھر چھوٹا بھائی اوصاف الرحمان ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے بڑے بھائی عبداللہ سے تحریک پاکر یہ بھی کچھ وقت سے کالم لکھ رہے ہیں اور حوصلہ افزائی کے طور اس کی بھی کئی تحریریں مقامی روز نامے میں شائع ہوئی ہیں۔

وادی کشمیر کے بچوں میں ہنر، قابلیت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے البتہ عبداللہ جسے ہونہار بچوں کو موقع کی تلاش ہوتی ہے جوکہ انہیں فراہم کیا جانا چاہیے۔

Last Updated : Jun 16, 2021, 4:33 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.