سرینگر: وادیٔ کشمیر میں 50 فیصد بزرگ اشخاص زیادتیوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سروے سامنے آیا ہے جس کے مطابق 26000 بزرگوں میں سے 50 فیصد ایسے بزرگ مریض تھے جو کہ کسی نہ کسی شکل میں اپنوں کے ہی ستائے ہوئے ہیں۔ نفسیات کے سینئر کنسلٹنٹ اور گوری کول فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زبیر سلیم نے بزرگوں کے تئیں ہورہی زیادتی اور بدسلوکی کے تناظر میں یہ چونکا دینے والی تحقیق روشنی میں لائی ہے۔ کشمیر میں بزرگوں کے تئیں بڑھتے بدسلوکی اور زیادتی کے معاملات اور اس تناظر میں روشنی میں لائی گئی حالیہ تحقیق سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے ڈاکٹر زبیر سلیم سے خصوصی گفتگو کی۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 26000 بزرگوں پر کی گئی تحقیق میں تقریباً 50 فیصد اپنی ہی اولاد سے بدسلوکی اور زیادتی کا شکار پائے گئے۔ ایسے میں یہ تحقیق دو زمروں کے بزرگوں پر کی گئی ہے ایک وہ جو کہ مالی لحاظ سے اپنے بچوں پر منحصر تھے اور دوسرے وہ جو کہ مالی لحاظ سے خود کفیل تھے اور وہ اپنی ادویات اور ڈاکٹر وغیر کا خرچہ یا دیگر ضروریات زندگی پر ہونے والا خرچہ از خود برداشت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر سلیم نے کہا کہ سروے کے دوران یہ پایا گیا یے کہ ایک زمرے میں 43 فیصد بزرگ زیادتی کے شکار ہیں اور دوسرے زمرے میں 52.3 فیصد بدسلوکی کا شکار پائے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو میں سے ایک بزرگ زیادتی کا شکار ہے۔ اور یہ اعداد وشمار چونکا دینے والے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے عمر رسیدہ افراد کی تعداد بھی بہت ہے جو کہ اپنا دکھڑا سنانے پر بڑی مشکل سے آمادہ ہوتے ہیں جب کہ کئی سارے بزرگ اپنی پریشانیوں اور مشکلات دوسرے سے بانٹنے یا ظاہر کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بزرگ اپنے ہی اپنوں سے نہ صرف جذباتی، جسمانی بلکہ نفسیاتی زیادتیوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔ بدسلوکی کے اقسام گنواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنی اولاد ہی احسان فراموش ہوگئی ہیں۔ بعض اوقات سگے بیٹے ہی والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر زبیر سلیم نے کہا یہ بدسلوکی اپنے والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے سے شروع ہوجاتی ہے جو کہ بعد میں زیادتی کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ڈاکٹر میں نے ایسے کئی بزرگ بھی دیکھے جن کے بچے انہیں مکمل طور پر چھوڑ چکے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنے والدین سے فون پر خیر و عافیت پوچھنا بھی گنوارا نہیں کرتے ہیں۔ کئی عمر رسیدہ بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جو کہ ایک ایک پیسہ کے لیے ترستے ہیں جب کہ ایسے بھی بیٹے ہیں جو کہ اپنے زندگی میں اتنے مصروف ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کو نوکر یا میڈ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ایسے میں یہ عمر رسیدہ افراد اس بدسلوکی، جسمانی یا ذہنی یا دیگر زیادتی پر احتجاج بھی نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ وہ اپنوں سے ہورہی زیادتی کا اظہار کرنے سے شرم محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں بزرگ افراد انتہائی اہم اثاثہ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی تاریخ، ثقافت، روایات اور خاندانی اقدار کا امین مانا جاتا ہے۔ بزرگوں کی مثال ایسی ہے جیسے "تپتی دھوپ میں گھنا سایہ"۔ وہ بچوں کی تربیت کرنے کے ساتھ گھر بھر کا سکون قائم رکھتے ہیں۔ تاہم بڑھاپا ایک ایسا فطری عمل ہے۔ جس سے ہر کسی کو ایک نہ ایک دن گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے بزرگوں کی قدر اور عزت و تکریم کریں تاکہ کل ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جائے۔
واضح رہے کہ بزرگ افراد کو درپیش مسائل اور معاشرے میں ان کے مقام پر روشنی ڈالنے کے لیے بزرگ افراد کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے جس میں مختلف تقریبات، سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ معمر افراد کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق سےمتعلق آگاہی حاصل کرسکیں۔ بات چیت کے دوران ڈاکٹر زبیر سلیم نے کہا کہ والدین یا بزرگوں کے لیے زندگی کی گاڑی ایک خاص عمر کے بعد توجہ کی دوگنی مستحق ہوجاتی ہے اور مناسب توجہ میسر نہ آئے تو انھیں صحت، غذا، رہائش، تفریح اور آمدنی کے مسائل درپیش آنے لگتے ہیں۔ اس لیے ان مسائل سے گریز کے بجائے انھیں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔