ETV Bharat / state

شہنشاہ زمستان چالیس روزہ ’چلہ کلاں‘ مسند اقتدار پر جلوہ افروز - چلہ کلاں کی کشمیر میں آمد

وادی کشمیر میں گرچہ سخت ترین اور شدید سردیوں کا چالیس روزہ دور ’’چلہ کلاں‘‘ 21دسمبر سے شروع ہوتا تاہم رواں برس چلہ کلان سے پہلے ہی اہلیان وادی ٹھٹھرتی سردی اور منفی درجہ حرارت کے تیکھے تیور دیکھ چکے ہیں۔

کشمیر: شہنشاہ زمستان چالیس روزہ ’چلہ کلاں‘ مسند اقتدار پر جلوہ افروز
کشمیر: شہنشاہ زمستان چالیس روزہ ’چلہ کلاں‘ مسند اقتدار پر جلوہ افروز
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 21, 2023, 4:52 AM IST

سرینگر (نیوز ڈیسک) : وادی کشمیر میں خشک موسم مگر ٹھٹھرتی شبانہ سردیوں کے بیچ ٹنڈ کا بادشاہ ’’چلہ کلان‘‘ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اپنے چالیس روزہ مسند اقتدار پر پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہو گیا۔ چلہ کلان جو ’’شہنشہاہ زمستان‘‘ کے نام سے بھی وادی کے قرب و جوار میں مشہور ہے،21 دسمبر سے شروع ہو کر 29اور 30 جنوری کی درمیانی شب اختتام ہو جاتا ہے۔

موسم سرما کے یہ چالیس روز ٹھٹھرتی سردیوں، بھاری برف باری، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے درج ہونے سے آبی ذخائر یہاں تک کہ گھروں میں نصب پانی کے نل منجمد ہونے کے باعث وادی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چلہ کلان ہر سال اپنے دور اقتدار میں اپنے تمام تر طاقت و زور کا استعمال کرکے لوگوں کو سخت ترین مشکلات سے دو چار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ہے۔ شہنشاہ زمستان اپنے دور میں خاص طور پر ’’شبانہ کرفیو‘‘ نافذ کرکے لوگوں کو نہ صرف گھروں میں ہی محدود کرکے رکھ دیتا ہے بلکہ گھروں میں بھی ان ہی خاص کمروں تک محدود کر دیتا ہے جن میں گرمی کا کوئی انتظام ہو، جن کمروں میں گرمی کا انتظام نہیں ہوتا ہے ان میں شاید ہی کوئی بیٹھنے کی جرات کرتا ہے، سونے یا آرام کرنے کی تو بات ہی نہیں۔ اگرچہ چلہ کلان دن کے دوران اپنے منفرد کرفیو میں ذرا سی ڈھیل دیتا ہے لیکن پھر بھی عمر رسیدہ افراد، مریضوں اور بچوں کے باہر نکلنے پر ’پابندی‘ ہی عائد رہتی ہے۔

چلہ کلان کے دوران ہونے والی بھاری برف باری جو بالائی علاقوں میں پانچ سے چھ فٹ تک بھی جمع ہوتی ہے، سے جہاں بجلی کی ترسیلی لائنیں زمین بوس ہو جاتی ہیں اور وادی میں گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں تمام رابطہ سڑکیں بھی ٹریفک کیا لوگوں کے پیدل سفر کرنے کے لئے بھی منقطع ہو جاتی ہیں، اور پھر تب تک کوئی اپنے ہمسائے کے پاس بھی جانے سے قاصر ہوتا ہے جب تک نہ برف ہٹانے کے لئے رضاکارانہ یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی بند وبست کیا جائے۔ اس دوران دیہی علاقوں میں مریضوں خاص طور پر حاملہ خواتین کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔

اقتدار پر براجمان ہوتے ہی چلہ کلان سب سے پہلے دو اہم ترین ضروریات زندگی جیسے پانی اور بجلی پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور لوگوں کو پانی کے ایک ایک بوند کے لئے ترساتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ اپنے طاقت کا استعمال کرکے بجلی کا نظام در ہم برہم کرکے ہر سو تاریکی کو بکھیر دیتا ہے۔ گرچہ اہلیان وادی جو چلہ کلان کے تیکھے تیور سے بخوبی آگاہ ہیں، اس کے مظالم اور سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حتی الوسع انتظامات کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ انہیں گوناگوں مشکلات سے دوچار کرکے ان کی زندگیوں کو اجیرن بناکر اپنی جاہ و حشمت اور ٹھاٹ باٹ کو قائم و دائم رکھنے میں کوئی کمی نہیں کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: سری نگر سمیت کئی علاقوں میں سرد ترین موسم

اہلیان وادی سردیوں کے اس بادشاہ کی سختیوں کے پیش نظر جہاں گھروں میں پہلے ہی خشک سبزیوں، کوئلے، گیس وغیرہ کا بھر پور بندوبست کرکے رکھتے ہیں وہیں گرم کپڑوں، رضائی، کمبلوں وغیرہ جیسا سامان کا بھی اچھا خاصا اسٹاک رکھتے ہیں۔ یوں تو اہلیان وادی چلہ کلان کی سختیوں سے لڑنے کے لئے صدیوں سے روایتی ’پھیرن‘ اور کانگڑی کا استعمال کرتے ہیں جس کا رواج آج بھی برابر قائم ہے۔ تاہم موجود دور میں لوگ اس کی کپکپاتی سردیوں سے نبر آزما ہونے کے لئے گرمی کے لئے الیکٹرانک آلات جیسے روم ہیٹروں اور گیس ہیٹروں کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم امسال وادی میں چلہ کلاں کے دور اقتدار سے قبل ہی ٹھٹھرتی سردیوں کا راج قائم تھا، جس سے پانی ذخائر بالخصوص شہرہ آفاق جھیل ڈل کے بعض حصے منجمد ہونے لگے ہیں بلکہ کئی علاقوں میں گھروں میں نصب نل بھی منجمد ہونے شروع ہوئے ہیں۔

چالیس روزہ چلہ کلان کے اختتام کے بعد بیس روزہ ’’چلہ خورد‘‘ تخت نیشن ہوگا تاہم اس کی حکومت اس قدر سخت نہیں ہوتی ہے اس دور میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت میں بتدیرج کمی وقع ہونے لگتی ہے تاہم اس دور میں بھاری برف باری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ’چلہ خورد‘ کے بعد دس روزہ ’چلہ بچہ‘ کو اہلیان وادی کسی بھی صورت میں کمتر نہیں سمجھتے اور پھر فروی کی آخری رات یا مارچ کی صبح سخت ترین سردی کے 70روزہ دور کو خیرباد کہہ کر بہار کا استقبال کرتے ہیں۔

سرینگر (نیوز ڈیسک) : وادی کشمیر میں خشک موسم مگر ٹھٹھرتی شبانہ سردیوں کے بیچ ٹنڈ کا بادشاہ ’’چلہ کلان‘‘ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اپنے چالیس روزہ مسند اقتدار پر پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہو گیا۔ چلہ کلان جو ’’شہنشہاہ زمستان‘‘ کے نام سے بھی وادی کے قرب و جوار میں مشہور ہے،21 دسمبر سے شروع ہو کر 29اور 30 جنوری کی درمیانی شب اختتام ہو جاتا ہے۔

موسم سرما کے یہ چالیس روز ٹھٹھرتی سردیوں، بھاری برف باری، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے درج ہونے سے آبی ذخائر یہاں تک کہ گھروں میں نصب پانی کے نل منجمد ہونے کے باعث وادی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چلہ کلان ہر سال اپنے دور اقتدار میں اپنے تمام تر طاقت و زور کا استعمال کرکے لوگوں کو سخت ترین مشکلات سے دو چار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ہے۔ شہنشاہ زمستان اپنے دور میں خاص طور پر ’’شبانہ کرفیو‘‘ نافذ کرکے لوگوں کو نہ صرف گھروں میں ہی محدود کرکے رکھ دیتا ہے بلکہ گھروں میں بھی ان ہی خاص کمروں تک محدود کر دیتا ہے جن میں گرمی کا کوئی انتظام ہو، جن کمروں میں گرمی کا انتظام نہیں ہوتا ہے ان میں شاید ہی کوئی بیٹھنے کی جرات کرتا ہے، سونے یا آرام کرنے کی تو بات ہی نہیں۔ اگرچہ چلہ کلان دن کے دوران اپنے منفرد کرفیو میں ذرا سی ڈھیل دیتا ہے لیکن پھر بھی عمر رسیدہ افراد، مریضوں اور بچوں کے باہر نکلنے پر ’پابندی‘ ہی عائد رہتی ہے۔

چلہ کلان کے دوران ہونے والی بھاری برف باری جو بالائی علاقوں میں پانچ سے چھ فٹ تک بھی جمع ہوتی ہے، سے جہاں بجلی کی ترسیلی لائنیں زمین بوس ہو جاتی ہیں اور وادی میں گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں تمام رابطہ سڑکیں بھی ٹریفک کیا لوگوں کے پیدل سفر کرنے کے لئے بھی منقطع ہو جاتی ہیں، اور پھر تب تک کوئی اپنے ہمسائے کے پاس بھی جانے سے قاصر ہوتا ہے جب تک نہ برف ہٹانے کے لئے رضاکارانہ یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی بند وبست کیا جائے۔ اس دوران دیہی علاقوں میں مریضوں خاص طور پر حاملہ خواتین کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔

اقتدار پر براجمان ہوتے ہی چلہ کلان سب سے پہلے دو اہم ترین ضروریات زندگی جیسے پانی اور بجلی پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور لوگوں کو پانی کے ایک ایک بوند کے لئے ترساتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ اپنے طاقت کا استعمال کرکے بجلی کا نظام در ہم برہم کرکے ہر سو تاریکی کو بکھیر دیتا ہے۔ گرچہ اہلیان وادی جو چلہ کلان کے تیکھے تیور سے بخوبی آگاہ ہیں، اس کے مظالم اور سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حتی الوسع انتظامات کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ انہیں گوناگوں مشکلات سے دوچار کرکے ان کی زندگیوں کو اجیرن بناکر اپنی جاہ و حشمت اور ٹھاٹ باٹ کو قائم و دائم رکھنے میں کوئی کمی نہیں کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: سری نگر سمیت کئی علاقوں میں سرد ترین موسم

اہلیان وادی سردیوں کے اس بادشاہ کی سختیوں کے پیش نظر جہاں گھروں میں پہلے ہی خشک سبزیوں، کوئلے، گیس وغیرہ کا بھر پور بندوبست کرکے رکھتے ہیں وہیں گرم کپڑوں، رضائی، کمبلوں وغیرہ جیسا سامان کا بھی اچھا خاصا اسٹاک رکھتے ہیں۔ یوں تو اہلیان وادی چلہ کلان کی سختیوں سے لڑنے کے لئے صدیوں سے روایتی ’پھیرن‘ اور کانگڑی کا استعمال کرتے ہیں جس کا رواج آج بھی برابر قائم ہے۔ تاہم موجود دور میں لوگ اس کی کپکپاتی سردیوں سے نبر آزما ہونے کے لئے گرمی کے لئے الیکٹرانک آلات جیسے روم ہیٹروں اور گیس ہیٹروں کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم امسال وادی میں چلہ کلاں کے دور اقتدار سے قبل ہی ٹھٹھرتی سردیوں کا راج قائم تھا، جس سے پانی ذخائر بالخصوص شہرہ آفاق جھیل ڈل کے بعض حصے منجمد ہونے لگے ہیں بلکہ کئی علاقوں میں گھروں میں نصب نل بھی منجمد ہونے شروع ہوئے ہیں۔

چالیس روزہ چلہ کلان کے اختتام کے بعد بیس روزہ ’’چلہ خورد‘‘ تخت نیشن ہوگا تاہم اس کی حکومت اس قدر سخت نہیں ہوتی ہے اس دور میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت میں بتدیرج کمی وقع ہونے لگتی ہے تاہم اس دور میں بھاری برف باری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ’چلہ خورد‘ کے بعد دس روزہ ’چلہ بچہ‘ کو اہلیان وادی کسی بھی صورت میں کمتر نہیں سمجھتے اور پھر فروی کی آخری رات یا مارچ کی صبح سخت ترین سردی کے 70روزہ دور کو خیرباد کہہ کر بہار کا استقبال کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.