سری نگر میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں میں حزب المجاہدین کے دو اعلیٰ کمانڈرز جنید سہرائی اور سیف الاسلام بھی شامل ہیں۔
سری نگر میں اس برس تشدد کا پہلا واقعہ 5 فروری 2020 کو پیش آیا جب سرینگر کے مضافات لاوے پورہ میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین تصادم میں دو عسکریت اور سی آر پی ایف کا ایک اہلکار ہلاک ہوا-
اس کے تین ماہ بعد 19 مئی 2020 کو سرینگر کے شہر خاص کے نواب بازار علاقے میں خونی جھڑپ میں دو عسکریت پسند ہلاک کئے گئے جن میں حزب المجاہدین کے جنید سہرائی اور ان کا ایک ساتھی ہلاک ہوا۔
ان انکاؤنٹرز میں تقریباً 21 چھوٹے بڑے رہائشی مکانات بھی تباہ ہوئے جن کی بازآبادکاری کے لیے مقامی لوگوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپیل کرکے رقم جمع کی گئی۔
وہیں21 جون 2020 کو شہر کے زونی مر علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین تصادم میں تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے جن میں ایک مقامی عسکریت پسند شکور احمد کا تعلق قمرواری علاقے سے تھا۔
اس کے بعد 3 جولائی 2020 کو ملہ باغ علاقے میں ضلع اننت ناگ کا مطلوب عسکریت پسند کمانڈر زاہد داس تصادم میں ہلاک کردیا گیا۔ اس کی ہلاکت کو پولیس نے اہم کامیابی قرار دیا تھا-
اسی ماہ25 جولائی 2020 کو سری نگر کے مضافات پنزی ناڑ میں لشکر طیبہ کے دو عسکریت پسند ہلاک کیے گئے۔
اس کے ایک ماہ بعد 30 اگست 2020 کو سری نگر کے مضافات پانتھہ چوک میں جھڑپ ہوئی جس میں تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
تاہم اس تصادم میں پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ببو رام، جو پولیس کے ایس او جی ونگ میں کئی برسوں سے عسکری مخالف کاروائیوں میں سرگرم تھے، کی بھی ہلاکت ہوئی۔
ستمبر2020 کی 17 تاریخ کو شہر کی گنجان آبادی والے علاقے بٹہ مالو میں جیش محمد تنظیم سے وابستہ تین عسکریت پسند ہلاک کئے گئے-
اس تصادم کے دوران ایک مقامی خاتون کوثر صوفی بھی ہلاک ہوئیں- پولیس کا کہنا تھا کہ خاتون کراس فائرنگ میں ہلاک ہوئیں جن کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔
جبکہ 12 اکتوبر 2020 کو سری نگر کے رام باغ میں لشکر طیبہ کے کمانڈر سیف اللہ اور ان کا ایک ساتھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہوا-
یکم نومبر 2020 کو سری نگر کے مضافات رنگریٹ میں حزب المجاہدین کے کمانڈر سیف الاسلام تصادم میں ہلاک ہو گئے- ان کی ہلاکت کو بھی پولیس نے اہم کامیابی قرار دیا تھا-
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ملنگ پورہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے سیف الاسلام سنہ 2018 سے عسکریت پسندوں میں سرگرم تھے-
سال کے اختتام پر 30 دسمبر 2020 کو لاوے پورہ میں فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تصادم میں جنوبی کشمیر کے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے-
تاہم اس معاملے میں تنازعہ برپا ہوا جب ہلاک شدگان کے لواحقین نے سیکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا کہ یہ تینوں معصوم ہیں اور ان کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا- پولیس نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے-
غور طلب ہے کہ سنہ 2016 تک سری نگر میں اگرچہ پتھر بازی کے واقعات پیش آتے تھے تاہم عسکریت پسندی یا تصادم آرائیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی-
تاہم عسکریت پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شہر سری نگر میں نوجوانوں نے عسکری راہ اختیار کی جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جنید سہرائی بھی شامل تھے-
سری نگر میں تصادم کے واقعات سنہ 2018 سے شروع ہونے لگے جب لشکر طیبہ کے مقامی کمانڈر معراج بنگرو شہر خاص کے فتح کدل میں جھڑپ میں ہلاک ہوئے تھے-
مزید پڑھیں:سرینگر: سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم
میجر جنرل ایچ ایس ساہی جو کلو فورس کے جی او سی ہیں، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سری نگر میں مقامی عسکریت پسندوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے تاہم عسکریت پسندوں کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ وہ سرینگر میں کارروائی کریں کیونکہ ان کو یہاں سے تشہیر ملتی ہے-
رواں برس 26 جون کو کشمیر زون کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے کہا تھا کہ عسکریت پسند اشفاق کھانڈے کی ہلاکت سے سری نگر، عسکریت پسندوں سے خالی ہوا تھا۔
تاہم اس کے بعد شہر کے تین نوجوان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوئے جن میں حالیہ دنوں میں نٹی پورہ کے عرفان احمد صوفی بھی ہیں-
اس تصادم کے علاوہ سری نگر میں سیکیورٹی فورسز پر پانچ حملے ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار ہلاک جبکہ چار عام شہری بھی ہلاک ہوئے-