اگرچہ انتظامیہ کی جانب سے عوام کو اب سست رفتار انٹرنیٹ خدمات فراہم کی جا رہی ہیں تاہم ابھی بھی سیاسی رہنما حراست میں ہے اور جس وجہ سے مرکزی زیر انتظام خطے میں سیاسی سرگرمیاں نہ کے برابر ہیں۔
واضع رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد مرکز کے زیر انتظام لیا۔ اس فیصلے سے جہاں وادی کی عوام ناراض تھی وہیں انتظامیہ کو بھی شدید احتجاج کا انکشاف تھا جس وجہ سے پورے علاقے میں دفعہ 144 کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی، سکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں مزید اضافہ کیا گیا، مواصلاتی نظام معطل کیے جانے کے ساتھ ساتھ ہند سیاسی رہنماؤں کو بھی حراست میں لیا گیا۔
حراست میں لیے گئے لیڈران میں جموں و کشمیر کے سابق وزراء اور وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ ان لیڈران پر اب پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا ہے۔
افواہوں کا بازار گرم؟
حال ہی میں علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی صحت کے تعلق سے سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر پر کئی بیانات سامنے آئے۔ جس کے پیش نظر انتظامیہ نے انٹرنیٹ کئی بار کچھ گھنٹوں کے لیے معطل کرنا پڑا۔ وہیں گیلانی کے رشتےداروں کا کہنا تھا کہ "بزرگ رہنما کی صحت ناساز ہے تاہم ابھی حیات ہیں.' ان باتوں کا سماجی رابطہ ویب سائٹس پر وائرل ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کے جانب سے سرینگر کے سائبر سیل میں نامعلوم افراد کے خلاف شکایت درج کی گئی۔
گزشتہ دنوں میں تقریباً 1000 سے زائد سماجی رابطہ ویبسایٹ کا استعمال کرنے والوں کی نشاندھی کی گئی اور دو افراد کو گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ ان سب سے وادی کے عوام میں خدشات مزید بڑ گئے۔
غیر ملکی وفود کا دورہ جموں و کشمیر
پانچ اگست کے بعد وادی کشمیر کی صورتِحال کا جائزہ لینے تین وفود نے وادی کشمیر کا دورہ کیا۔ گزشتہ برس کے اکتوبر مہینے میں کشمیر کے نجی دورے پر آئے یوروپین یونین کے وفد نے دعویٰ کیا کی وہ اپنے پارلیمنٹ کے سامنے رپورٹ پیش کریں گے تاہم ابھی تک کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
وہیں رواں برس جنوری اور فروری کے مہینے میں آئے غیر ملکی سفارتکاروں نے کشمیر کے حالات کو "نارمل" کرار دیا کیوں کی اُن کا دعویٰ تھا کہ " ہوائی اڈّے سے شہر کی اور آتے وقت اُن ہونے طلباء کو اسکول جاتا دیکھا۔ " قبل ذکر ہے کہ اس وقت وادی کشمیر کے اسکولوں میں سرمائی چھٹیاں چل رہی ہیں۔
جموں و کشمیر کی اقتصادی صورتحال
ایک اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے اگست ماہ سے اب تک کشمیر کی معیشت کو 2.4 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عداد شمار کے مطابق 144500 افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے۔
مواصلاتی نظام کی صورتحال
پانچ اگست کے روز جموں و کشمیر میں تمام مواصلاتی رابطوں پر پابندیوں کی گئی تھی۔ اگرچہ انتظامیہ نے گزشتہ ماہ 5 جنوری کو سست رفتار 2جی انٹرنیٹ خدمات بحال تو کیا لیکن مخصوص وئب سائٹس تک ہی لوگوں کی رسائی کو ممکن بنادیا گیا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے سماجی رابطہ ویب سائٹس پر پابندی برقرار ہے۔ وہیں عوام ورچول پرائیویٹ نیٹ ورک کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے۔
محکمہ داخلہ نے تمام ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدایات دی تھیں کہ وہ وی پی این ایپلی کیشنز کو بلاک کرنے کے لیے ضروری اقدام کریں جس کے پیش نظر متذکرہ کمپنیوں نے فائر وال نصب کرکے اور دیگر تیکنیکوں کے ذریعے وی پی این بلا ک کرنے کا عمل شروع کیا اگرچہ انہیں اس سلسلے میں قریب 80 فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم ابھی بھی بعض صارفین وی پی این کا استعما ل کرکے سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔
جموں و کشمیر پولیس نے وادی میں وی پی این کے ذریعے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں نامعلوم افراد کے خلاف شکایت درج کی گئی ہیں اور دو افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔