جموں: جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید جمعہ کو اپنے وکیل ایڈوکیٹ انل سیٹھی کے ساتھ جموں کی خصوصی سی بی آئی کورٹ میں حاضر ہوئیں۔ روبیہ کو 1989 میں سرینگر کے بالائی علاقے سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندون کی جانب سے اغوا کئے جانے سے متعلق درج کیس میں بطور گوا ہ طلب کیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی وکیل مونیکا کوہلی کے مطابق اغوا کیس میں روبیہ سعید نے تہاڑ جیل میں مقید لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کر لی ہے۔ ۔ سماعت کی اگلی تاریخ 23 اگست ہے۔ انہوں نے کل 4 ملزمین کی شناخت کی ہے.Rubaiya Sayeed identifies all her abductors
ایڈووکیٹ انل سیٹھی سے جب پوچھا گیا کہ 'کیا روبیہ سعید نے یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کی ہے؟ انل سیٹھی نے بتایا کہ جی ہاں، پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعید سی بی آئی کی تحقیقات کے دوران انہیں دستیاب تصاویر کی بنیاد پر ہر کسی کی شناخت کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ Rubaiya Sayeed Kidnapping case
واضح رہے کہ دو روز قبل کالعدم تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر محمد یاسین ملِک نے جموں کی ایک خصوصی عدلت سے روبیہ سعید معاملے میں عدالت میں خود گواہوں سے جرح کرنے کی گزارش کی تھی۔ Yasin Malik on Rubaiya Sayeed Case
عدالت کے ایک سینیئر آفیسر کے مطابق 'یاسین ملِک نے گزارش کی ہے کہ وہ جموں عدالت میں ذاتی طور پر حاضر ہو کر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا معاملے میں گواہوں سے جرح کریں گے اور اگر اُن کو اجازت نہیں دی گئی تو وہ غیر معینہ مدت تک بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گے۔ یاسین ملک نے اس حوالے سے مرکزی حکومت کو بھی خط لکھا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں : Rubaiya sayeed kidnaping case hearing: روبیہ سعید جموں کورٹ پہنچیں، ایڈوکیٹ انیل سیٹھی ہمراہ
جس وقت اغوا کا یہ واقعہ سامنے آیا تھا، اسوقت مفتی محمد سعید مرکز میں وزیر داخلہ تھے اور آزادی کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب بھارت میں کسی مسلمان کو یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شریک وی پی سنگھ کی مخلوط جنتا دل حکومت کیلئے روبیہ سعید کی بازیابی ایک نازک صورتحال تھی۔جموں و کشمیر میں اسوقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم تھی جو روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے پانچ عسکریت پسندوں کو چھوڑنے کی مخالفت کررہی تھی۔
روبیہ سعید ایک منی بس میں سرینگر کے میڈیکل کالج سے اپنی رہائش گاہ نوگام کی جانب جارہی تھی جب عسکریت پسندوں نے انہیں حیدر پورہ کے قریب بندوق کی نوک پر اغوا کیا۔ انہیں ایک ماروتی کار میں سوار کرکے سوپور پہنچادیا گیا تھا۔ روبیہ سعید اسوقت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہی تھیں اور وزیر داخلہ کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ مسافر بس مین سفر کررہی تھیں اور انہیں کوئی سیکیورٹی نہیں دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : Yasin Malik on Rubaiya Sayeed Case: یاسین ملک نے روبیہ سعید کیس میں گواہوں سے جرح کرنے کی درخواست کی
سینیئر آفیسر نے مزید کہا کہ 'یاسین ملک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عدالت میں آج پیش ہوئے تھے۔" واضح رہے کہ یہ مقدمہ 8 دسمبر 1989 کے روبیہ سعید کے اغوا سے متعلق ہے۔ روبیہ سعید کے اغوا کے پانچ روز بعد 13 دسمبر کو اس وقت کی وی پی سنگھ حکومت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پانچ عسکریت پسندوں کو ان کی رہائی کے بدلے میں رہا کیا تھا۔ یاسین ملک کو 2019 میں ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ گرفتار کیے جانے کے بعد یہ معاملہ دوبارہ منظر عام پر آگیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس جنوری میں سی بی آئی نے خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز مونیکا کوہلی اور ایس کے بٹ کی مدد سے روبیہ سعیدا غوا معاملے میں یاسین ملک سمیت 10 لوگوں کے خلاف الزامات طے کیے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ ٹیرر فنڈنگ کیس میں قصوروار کشمیر کے علیٰحدگی پسند لیڈر یاسین ملِک کو این آئی اے کورٹ نے 25 مئی کو سزا سنائی ہے۔ کورٹ نے یاسین ملک کو دو مقدمات میں عمر قید کی سزا کے علاوہ 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
Yasin Malik gets life imprisonment in terror funding case
واضح رہے کہ روبیہ سعید کی رہائی کے عوض پانچ علیحدگی پسندوں کو رہا کرنے کے بعد سرینگر میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آکر عسکریت پسندوں کی اس’’کامیابی‘‘ پر نعرے لگائے تھے۔ فاروق عبداللہ نے بعد میں انٹرویوز مین کہا کہ انہون نے مرکزی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندون کی رہائی سے انکے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ اس واقعے کے بعد ہونیوالی متعدد سیاسی تبدیلیوں کے بعد فاروق عبداللہ نے اپنے عہدے سے استعفیی دیا تھا جس کے بعد ریاست میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ فاروق عبداللہ کے استعفے کی فوری وجہ جگموہن ملہوترہ کو بحیثیت گورنر تعینات کرنا تھا۔ روبیہ سعید کے بدلے جن عسکریت پسندوں کو رہا کیا گیا ان میں شیر خان، نور محمد کلوال اور عبدالحمید شیخ شامل ہیں۔ حمید شیخ کو بعد میں سیکیورٹی فورسز نے عالی کدل سرینگر میں اسوقت ہلاک کیا جب وہ ایک کشتی میں اپنے ساتھیوں سمیت دریائے جہلم عبور کررہے تھے۔