شوپیاں: وادی کشمیر میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی 84 کلومیٹر تاریخی مغل روڈ سے خانہ بدوش افراد وادی کشمیر کی طرف کوچ کرنا شروع کر دیا ہے۔ خانہ بدوش افراد اپنے مال، مویشیوں کے ساتھ سردیوں میں میدانی گرم علاقے جیسے پنجاب، جموں کشمیر کے ریاسی کٹھوعہ میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور موسم گرما آنے تک اپنے مال مویشیوں کا وہاں ہی گزرا کرتے ہیں۔ موسم گرما شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ لوگ واپس وادی کشمیر پہنچ جاتے ہیں The migration of Bakerwals begins with the arrival of summer۔
صدیوں پرانی اس ہجرت کے دوران انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی انہیں پہاڑی راستوں پر گزرنے کے دوران تیز بارشوں و پسیاں اور پتھروں کے گرنے سے کئی بار ان کے مویشی ہلاک ہوجا تے ہیں۔ اس کے علاوہ خانہ بدوش طبقہ کے لوگوں کو ہجرت کے دوران کئی دن و راتیں راستہ میں ہی گزارنے پڑتے ہیں اور کھانے پینے و رہنے کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
خانہ بدوش طبقہ کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صدیوں پرانی چلی آرہی اس ہجرت کے دوران انکے مال مویشیوں کے لیے حکومت کوئی انشورنس اسکیم قائم کریں تاکہ ہجرت کے دوران انہیں ہونے والے نقصان کا معاوضہ مل سکیں۔
مزید پڑھیں:
- nomads migration: خانہ بدوشوں کی ہجرت میں تاخیر کیوں؟
- Nomadic Community Deprived of Basic Facilities: جموں میں خانہ بدوشوں کی فریاد، حکومت سے مدد کی اپیل
گزشتہ برسوں کے دوران کورونا وائرس کی وجہ سے اگرچہ خانہ بدوش افراد کو کافی مشکلات درپیش آئے تاہم امسال انہیں امید ہے کہ انکی مال کی بکری اچھی رہے گی اور انہیں اچھا خاصا منافع ہوگا۔