شوپیان: جموں و کشمیر کے شوپیان ضلع کے چتراگام علاقے میں ایک سال قبل پُل گرنے کے بعد اس کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے دو اضلاع سمیت متعدد علاقوں کی عوام کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے جبکہ دریا میں پانی کا زیادہ بہاو ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی دریا عبور نہیں کرپاتی، جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو کافی زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک پل کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق پل تباہ ہونے کی وجہ سے شوپیان ضلع کے چتراگام علاقے کا راستہ ضلع کولگام سے منقطع ہو گیا ہے۔ لیکن مقامی و ضلع انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک مذکورہ پل کی مرمت نہیں کی گئی۔
مقامی لوگوں نے ضلع انتظامیہ شوپیاں کے خلاف ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ کئی سال قبل چتراگام ریبن یاری پورہ روڈ پر ایک پُل تعمیر کیا گیا تھا، جو بعد میں دھیرے دھیرے خستہ ہونے لگا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے ضلع انتظامیہ کے افسران کو مطلع کیا کہ پل کی تعمیر نو کی جائے کیونکہ خستہ ہونے کی وجہ سے یہ پُل کبھی بھی گر سکتا ہے۔ تاہم ضلع انتظامیہ شوپیاں نے اس پل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ بل آخر گزشتہ سال یہ پل گر گیا اور ایک بڑا حادثہ ہوتے ہوتے ٹل گیا۔
انہوں نے ضلع انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ مذکورہ علاقوں کی عوام کے ساتھ ساتھ طلباء بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن متعدد بار انتظامیہ سے رجوع کرنے کے باوجود بھی مقامی لوگوں کو سہولیات میسر نہیں کی گئی ہے۔ مقامی لوگوں نے مرکزی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ تعمیرو ترقی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تاہم دیہی علاقوں کی عوام کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Dilapidated Bridge بارہمولہ میں لکڑی کے پُل کی خستہ حالی سے لوگ پریشان
مذکورہ دریا میں پُل نہ ہونے کی وجہ سے اسکولی بچوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں ود یگر لوگوں کو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دریا عبور کرنا پڑ رہاہے۔ مقامی لوگوں نے انتظامیہ و متعلقہ محکمہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ پُل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اسکولی طلباء کو دریا عبور کرتے وقت اپنی جان جوکھم میں ڈالنی پڑتی ہے۔ مقامی لوگوں نے ضلع انتظامیہ سے اپیل کر تے ہوئے کہاکہ مذکورہ مقام پر جلد از جلد پل تعمیر کیا جائے تاکہ عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔