سرکاری ترجمان کے مطابق انتظامی کونسل کی میٹنگ جو جمعرات کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں منعقد ہوئی، میں مغل روڑ کی 84.11 کلومیٹر مسافت کی تجدید و توسیع کو منظوری دی جس پر تخمينة 47.41 کروڑروپے کی لاگت آئے گی۔
وادی کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان کو خطہ جموں سے جوڑنے والا تاریخی مغل روڈ ایک واحد متبادل راستہ ہے۔84 کلومیٹر لمبا یہ شاہراہ سرینگر جموں قومی شاہراہ کے بعد ایک واحد شاہراہ ہے جو وادی کشمیر کو ملک کی باقی ریاستوں سے ملاتاہے۔
ای ٹی وی بھارت کے لیے شوپیاں سے شاہد ٹاک کی رپورٹ
مغل روڈ جموں و کشمیر ریاست کی سب سے زیادہ دلکش اور دلفریب شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ مغل روڈ کا گزر پہاڑی علاقوں سے ہوتا جن میں ضلع شوپیان کا ہیرپورہ، دبجن اور پیر کی گلی ہیں اور صوبہ جموں کے راجوری ضلع کے بفلیاز، تھنہ منڈی علاقے شامل ہیں پہاڑی علاقے ہونے کی وجہ سے اس روڈ پر بہت زیادہ برف گرتی ہے جسکی وجہ کہی مہینوں تک یہ روڈ بند رہتا اور دونوں صوبوں کے لوگ چاہتے کہ اس روڈ کو پورا سال کھلا رکھا جائے اور اس روڈ پر ززنار سے لیکر چھتہ پانی تک ٹنل تعمیر کی جاے کیونکہ ان ہی علاقوں پر زیادہ برف ہونی کی وجہ سے روڈ زیادہ تر بند ہی رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پروازوں میں وائی فائی استعمال کے لئے رہنما ہدایات جاری
سال 2014کے تباہ کن سیلاب سے لیکر اب تک مغل روڈ نے جموں سرینگر روڈ کے بھاری ٹریفک بوجھ کم کرنے میں بہت اہم رول اد اکیاہے اور آج بھی جب جموں سرینگر روڈ چٹانیں کھسک آنے کی وجہ سے کئی کئی روزتک بند رہتی ہے یاپھراس پر بدترین ٹریفک جام، جو اب روز کا معمول بن چکاہے ،کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مال بردار،مسافر بردار اور نجی گاڑیوں کا گزر مغل روڈ سے ہوتاہے ،جس سے نیشنل ہائے وے پر ٹریفک کا دبائو کافی حد تک کم ہواہے ۔
مغل روڈ کا متبادل سڑک کے طور پر کئی سال سے استعمال ہورہاہے تاہم بدقسمتی سے حکام کی طرف سے ابھی تک اسے سرکاری سطح پرمتبادل شاہراہ کا درجہ نہیں دیاگیا اور نہ ہی آج تک اس کا سرکاری طو رپر افتتاح بھی ہواہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مغل شاہراہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے قومی شاہراہ کا درجہ دیاجائے اور ساتھ ہی ٹنل کی تعمیر کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات شروع کئے جائیں جس سے نہ صرف جموں اور سرینگر کے درمیان ٹریفک کی نقل و حمل میں آسانی ہوگی بلکہ خطہ پیر پنچال کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔