ETV Bharat / state

HC quashes PSA شوپیاں کے طالب علم پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کالعدم، ہائی کورٹ نے دیا رہائی کا حکم - جموں و کشمیر ہائی کورٹ

پبلک سیفٹی ایکٹ حکام کو گرفتار کیے گئے کسی بھی شخص کو بغیر کسی ٹرائل یا مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے، اور پی ایس اے کے تحت قید کیا گیا کوئی بھی شخص چھ ماہ کے بعد ہی عدالت سے رہائی یا ضمانت کے لیے رجوع کر سکتا ہے۔

hc-quashes-psa-of-shopian-youth
شوپیاں کے طالب علم پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کالعدم، ہائی کورٹ نے دیا رہائی کا حکم
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 29, 2023, 9:13 PM IST

سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے ) کو کالعدم کر دیا ہے۔ رواں مہینے کی 25 تاریخ کو جسٹس سنجے دھر نے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے شوپیاں کے رہنے والے سلمان وانی پر عائد تاہم الزامات کو خارج کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا۔

سلمان اس وقت ریاست ہریانہ کی ایک جیل میں گزشتہ ایک برس سے قید ہیں اور وہ شوپیاں ڈگری کالج کے طالب علم ہیں۔ انہیں حکام نے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزمات عائد کرتے ہوئے پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

دونوں طرف کی دلیلوں پر غور کرنے کے بعد جسٹس دھر نے اپنے چار صفات پر مشتمل حکم نامے میں کہا کہ "ریکارڈ پر موجود مواد کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزار کو صرف دو صف پر مشتمل نظر بندی کی بنیاد کے دستاویز فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ایس اے وارنٹ، نظر بندی کے نوٹس اور نظر بندی کے حکم کی کاپیاں درخواست گزار کو فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد سیکشن 107 اور 151 سی ار پی سی کے تحت کارروائی کا حوالہ دیتی ہے لیکن ان کارروائیوں سے متعلق متعلقہ دستاویزات کی کاپیاں بھی نظربند کو فراہم نہیں کی گئیں، جیسا کہ حراستی ریکارڈ سے واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو حراست کے ڈوزیئر کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔"

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کا یہ استدلال کہ نظر بندی کی بنیادوں کا تعین کرتے ہوئے، حراستی اتھارٹی کی طرف سے انحصار کیا گیا سارا مواد اسے فراہم نہیں کیا گیا، درست معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے، درخواست گزار کو ان اہم دستاویزات کی عدم فراہمی سے ایڈوائزری بورڈ کے سامنے موثر نمائندگی کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ احتیاطی حراست کے قانون کے من مانی استعمال کے خلاف اہم حفاظتی اقدامات اس معاملے میں جواب دہندگان کے ذریعہ خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جس سے نظربندی کے غیر مستحکم حکم کو قانون میں غیر پائیدار قرار دیا گیا ہے۔"

جسٹس دھر نے درخواست گزار کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہ آئین ہند کے دفعہ 22(5) کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔"انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کی نظر بندی کے حکم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ جواب دہندگان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ درخواست گزار کو فوری طور پر احتیاطی حراست سے رہا کر دیں، جب تک کہ وہ کسی دوسرے کیس کے سلسلے میں مطلوب نہ ہو۔

مزید پڑھیں: Many Arrested Under PSA in Kupwara کپواڑہ، منشیات معاملے میں اب تک گیارہ افراد پی ایس اے کے تحت گرفتار

بتادیں کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو سنہ 1978 میں سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے جموں و کشمیر میں جنگل کی لکڑیوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، تاہم بعد کی حکومتوں نے اس قانون کا استعمال سیاسی قیدیوں اور دیگر ملزمین کے خلاف کیا۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے دور اقتدار میں اس قانون کو علیحدگی پسندوں اور پتھراؤ یا احتجاج کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے اسے منشیات فروشوں ، عسکریت پسند معاونین اور او جی دبلوز پر استعمال کیا۔

سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے ) کو کالعدم کر دیا ہے۔ رواں مہینے کی 25 تاریخ کو جسٹس سنجے دھر نے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے شوپیاں کے رہنے والے سلمان وانی پر عائد تاہم الزامات کو خارج کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا۔

سلمان اس وقت ریاست ہریانہ کی ایک جیل میں گزشتہ ایک برس سے قید ہیں اور وہ شوپیاں ڈگری کالج کے طالب علم ہیں۔ انہیں حکام نے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزمات عائد کرتے ہوئے پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

دونوں طرف کی دلیلوں پر غور کرنے کے بعد جسٹس دھر نے اپنے چار صفات پر مشتمل حکم نامے میں کہا کہ "ریکارڈ پر موجود مواد کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزار کو صرف دو صف پر مشتمل نظر بندی کی بنیاد کے دستاویز فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ایس اے وارنٹ، نظر بندی کے نوٹس اور نظر بندی کے حکم کی کاپیاں درخواست گزار کو فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد سیکشن 107 اور 151 سی ار پی سی کے تحت کارروائی کا حوالہ دیتی ہے لیکن ان کارروائیوں سے متعلق متعلقہ دستاویزات کی کاپیاں بھی نظربند کو فراہم نہیں کی گئیں، جیسا کہ حراستی ریکارڈ سے واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو حراست کے ڈوزیئر کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔"

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کا یہ استدلال کہ نظر بندی کی بنیادوں کا تعین کرتے ہوئے، حراستی اتھارٹی کی طرف سے انحصار کیا گیا سارا مواد اسے فراہم نہیں کیا گیا، درست معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے، درخواست گزار کو ان اہم دستاویزات کی عدم فراہمی سے ایڈوائزری بورڈ کے سامنے موثر نمائندگی کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ احتیاطی حراست کے قانون کے من مانی استعمال کے خلاف اہم حفاظتی اقدامات اس معاملے میں جواب دہندگان کے ذریعہ خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جس سے نظربندی کے غیر مستحکم حکم کو قانون میں غیر پائیدار قرار دیا گیا ہے۔"

جسٹس دھر نے درخواست گزار کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہ آئین ہند کے دفعہ 22(5) کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔"انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کی نظر بندی کے حکم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ جواب دہندگان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ درخواست گزار کو فوری طور پر احتیاطی حراست سے رہا کر دیں، جب تک کہ وہ کسی دوسرے کیس کے سلسلے میں مطلوب نہ ہو۔

مزید پڑھیں: Many Arrested Under PSA in Kupwara کپواڑہ، منشیات معاملے میں اب تک گیارہ افراد پی ایس اے کے تحت گرفتار

بتادیں کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو سنہ 1978 میں سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے جموں و کشمیر میں جنگل کی لکڑیوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، تاہم بعد کی حکومتوں نے اس قانون کا استعمال سیاسی قیدیوں اور دیگر ملزمین کے خلاف کیا۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے دور اقتدار میں اس قانون کو علیحدگی پسندوں اور پتھراؤ یا احتجاج کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے اسے منشیات فروشوں ، عسکریت پسند معاونین اور او جی دبلوز پر استعمال کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.