ETV Bharat / state

شوپیاں فرضی تصادم: 'لاشوں کو اہلخانہ کے سپرد کیا جائے گا' - نوجوانوں کی لاشوں

جموں و کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل نے کہا کہ امشی پورہ شوپیاں انکاؤنٹر میں مارے گئے تین نوجوانوں کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے سُپرد کیا جائے گا۔

شوپیاں مبیئنہ فرضی تصادم
شوپیاں مبیئنہ فرضی تصادم
author img

By

Published : Sep 30, 2020, 4:00 PM IST

Updated : Sep 30, 2020, 10:27 PM IST

آئی جی کشمیر وجے کمار نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تینوں نوجوانوں کے ڈی این اے نمونے کی رپورٹ آئی ہے اور نمونے اہل خانہ کے نمونوں سے ملتے ہیں۔ تینوں نوجوانوں کی لاش کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کی جائیں گی۔

وجے کمار نے بتایا کہ قبریں کھود کر تینوں نوجوانوں کی لاشوں کو نکال کر ان کے اہل خانہ کے سُپرد کی جائیں گی'۔

گزشتہ روز اس معاملے میں شوپیاں میں دو نوجوانوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے دونوں افراد کو 8 دنوں تک پولیس ریمانڈ میں بھیج دیا ہے۔

ایک ہفتے قبل فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'شوپیاں تصادم کے دوروان تین نوجوانوں کی ہلاکت میں ملوث اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ تصادم کے دوران آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ (افسپا) 1990 کا حد سے زیادہ استعمال ہوا ہے نیز بھارتی فوجی سربراہ کی آپریشنز سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی ہے'۔

واضح رہے کہ فوج اور پولیس نے 18 جولائی کو اپنے بیانات میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین عدم شناخت عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس مبینہ فرضی تصادم کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت اپنے تین 'بے گناہ بیٹوں' کے طور پر کی تھی۔ ہلاک شدہ نوجوانوں میں سے 25 سالہ ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ 'فرضی' تصادم میں مارے گئے دیگر دو نوجوانوں کی شناخت اپنی سالی اور اپنے سالے کے لڑکوں بالترتیب 16 سالہ محمد ابرار اور 21 سالہ امتیاز احمد کے طور پر کی ہے۔

انہوں نے کہا: 'ابرار احمد، محمد ابرار اور امتیاز احمد ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ امتیاز احمد مزدوری کرنے کے لیے شوپیاں گیا ہوا تھا۔ امتیاز نے ابرار احمد اور محمد ابرار کو بھی فون کر کے وہاں بلا لیا۔ دونوں یہاں سے 15 جولائی کو روانہ ہو کر 130 کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے 17 جولائی کو وہاں پہنچے'۔ انہوں نے کہا: 'رات کے آٹھ بجے انہوں نے ہمیں فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پونے نو بجے سے ہمارا ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یہی وہ رات ہے جس دوران انہیں فرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا ہے۔'

محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس آدھار کارڈ تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت چھپائی جس کے بعد انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا: 'ہمارے دو مطالبات ہیں۔ ایک تو ہمیں بچوں کی لاشیں چاہئیں۔ ہم انہیں یہاں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملوث فوجیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات پیش نہ آئیں'۔

آئی جی کشمیر وجے کمار نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تینوں نوجوانوں کے ڈی این اے نمونے کی رپورٹ آئی ہے اور نمونے اہل خانہ کے نمونوں سے ملتے ہیں۔ تینوں نوجوانوں کی لاش کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کی جائیں گی۔

وجے کمار نے بتایا کہ قبریں کھود کر تینوں نوجوانوں کی لاشوں کو نکال کر ان کے اہل خانہ کے سُپرد کی جائیں گی'۔

گزشتہ روز اس معاملے میں شوپیاں میں دو نوجوانوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے دونوں افراد کو 8 دنوں تک پولیس ریمانڈ میں بھیج دیا ہے۔

ایک ہفتے قبل فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'شوپیاں تصادم کے دوروان تین نوجوانوں کی ہلاکت میں ملوث اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ تصادم کے دوران آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ (افسپا) 1990 کا حد سے زیادہ استعمال ہوا ہے نیز بھارتی فوجی سربراہ کی آپریشنز سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی ہے'۔

واضح رہے کہ فوج اور پولیس نے 18 جولائی کو اپنے بیانات میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین عدم شناخت عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس مبینہ فرضی تصادم کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت اپنے تین 'بے گناہ بیٹوں' کے طور پر کی تھی۔ ہلاک شدہ نوجوانوں میں سے 25 سالہ ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ 'فرضی' تصادم میں مارے گئے دیگر دو نوجوانوں کی شناخت اپنی سالی اور اپنے سالے کے لڑکوں بالترتیب 16 سالہ محمد ابرار اور 21 سالہ امتیاز احمد کے طور پر کی ہے۔

انہوں نے کہا: 'ابرار احمد، محمد ابرار اور امتیاز احمد ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ امتیاز احمد مزدوری کرنے کے لیے شوپیاں گیا ہوا تھا۔ امتیاز نے ابرار احمد اور محمد ابرار کو بھی فون کر کے وہاں بلا لیا۔ دونوں یہاں سے 15 جولائی کو روانہ ہو کر 130 کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے 17 جولائی کو وہاں پہنچے'۔ انہوں نے کہا: 'رات کے آٹھ بجے انہوں نے ہمیں فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پونے نو بجے سے ہمارا ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یہی وہ رات ہے جس دوران انہیں فرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا ہے۔'

محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس آدھار کارڈ تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت چھپائی جس کے بعد انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا: 'ہمارے دو مطالبات ہیں۔ ایک تو ہمیں بچوں کی لاشیں چاہئیں۔ ہم انہیں یہاں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملوث فوجیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات پیش نہ آئیں'۔

Last Updated : Sep 30, 2020, 10:27 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.