جسیری تالاب آس پاس کے درجنوں دیہات کی پیاس بجھاتا ہے۔ تاریخ کے ماہرین کے مطابق یہ تالاب تقریباً 400 سال قبل دیور کے طعنے پر بھابھی کے والد نے کھدوایا تھا اسی لیے اس تالاب کا نام بھی بھابھی جسبائی کے نام پر ہی جسیری رکھا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جسیری تالاب میں پیتل کی چادر کی ایک پرت بچھائی گئی ہے اور جب سے یہ تالاب بنایا گیا ہے اس وقت سے ایک بار بھی یہ سوکھا نہیں ہے حالانکہ ایک بار سنہ 1971 میں شدید قحط پڑا تھا ۔اس وقت اس تالاب کا پانی کم ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے آج تک کسی نے اس کی تہہ نہیں دیکھی ہے۔
زیر زمین پانی اور معدنیات کے ماہرین کے مطابق، تالاب کے خشک نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ تالاب ایسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں آس پاس کی ندیوں کا پانی بہہ کر آتا ہے۔ تالاب میں پانی بھرنے کی گنجائش زیادہ ہے اور آس پاس سے بہہ کر آنے والے پانی کے ساتھ چکنی مٹی بھی آتی ہے جو تالاب کی تہہ میں ایک پرت کی طرح جمع ہوجاتی ہے اسی لیے اس تالاب کا پانی جلدی نہیں سوکھتا۔
صحرائی علاقوں میں بوند بوند پانی کی اہمیت ہے اور جسیری تالاب پانی کے تحفظ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس تاریخی تالاب کی تصویر دہلی کے سائنس سینٹر بلڈنگ میں راجستھان کے روایتی پینے کے پانی کے وسائل کی ثقافت کو بیان کر رہی ہے۔ اس تالاب کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔