ETV Bharat / state

طبی مراکز یا ذبیحہ خانہ - کوٹا میں اسپتال میں بچوں کی موت

ہر قوم بچوں کو اپنا حقیقی اثاثہ سمجھتی ہے کیونکہ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دار و مدار بچوں پرہی ہوتا ہے۔ تاہم بھارت جہاں 27 فیصد نو عمر بچے اور 21 فیصد پانچ سال کی عمر سے کم بچوں کی اموات ہوتی ہے۔ اس ضمن میں بھارتی ریاست راجستھان کے کوٹہ میں رونما ہونے والا واقعہ ایک تازہ مثال ہے۔

طبی مراکز یا ذبحہ خانہ
طبی مراکز یا ذبحہ خانہ
author img

By

Published : Jan 13, 2020, 7:02 PM IST


کوٹہ موجودہ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کا انتخابی حلقہ ہے۔ لیکن جس انداز میں یہاں نوازئیدہ بچوں کی اموات ہورہی ہیں ، اس سے ملعوم ہوتا ہے کہ انتخابی حلقہ طبی شعبے کے تئیں حکومت کی لاپرواہی کا ایک نمونہ بن چکا ہے۔

راجستھان کے اس شہر اور گرد نواح کے علاقوں سے بچوں کو ایمرجنسی علاج و معالجے کے لئے عمومی طور پر جے کے لون اسپتال ہی لایا جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت انتہائی تشویشناک ہے کہ صرف دسمبر کے مہینے میں اس اسپتال میں 100 سے زائد نوزائید بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔

اس معاملے پر بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر نیشنل کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال ( این سی پی آر) نے اسپتال کا معائنہ کیا اور اس بات کو منظر عام پر لایا کہ سال 2019ء میں یہاں 940بچوں کی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

ریاستی حکومت نے حیلے بہانوں سے اس معاملے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ حکومت نے بڑی بے شرمی سے کہا کہ اسپتال میں سالانہ 1300سے 1500بچو ں کی اموات ہوتی رہتی ہیں، یعنی ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ بلکہ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوٹ نے یہاں تک کہا کہ اموات کی یہ تعداد ایک معمول ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہر سال ہزاروں بچوں کی اموات ہوتی رہتی ہیں ، تو حکومت نے ان برسوں کے دوران کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔اس سوال کا جواب کسی سیاستداں کے پاس نہیں ہے۔

نیشنل کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال ( این سی پی آر) کے معائنہ سے جے کے لون اسپتال کی بدحالی کے بارے میں مزید کئی انکشافات ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کمیشن کو معلوم ہوا کہ اس اسپتال میں وینٹی لیٹرس، گرمی پہنچانے والے اور بھاپ فراہم کرنے والے آلات میں سے پچاس فیصد کام نہیں کررہے ہیں۔

معائنے کے دوران کمیشن کے اراکین یہ دیکھ کر حیران کن رہ گئے کہ اسپتال کے احاطے میں خنزیر جیسے جانور دھندناتے ہوئے گھوم پھر رہے ہیں۔اس کے برعکس اسپتال کی جانب سے جانچ کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کو کچھ نظر نہیں آیا ۔ اس کمیٹی نے اسپتال میں انفراسٹکچر کی کمی یا کسی انتظامی خامی کو خارج از امکان قرار دیا ۔یہاں تک کہ اس کمیٹی نے کہا کہ اسپتال میں تمام طبی آلات درست اور کام کرنے کی حالت میں ہیں۔اس کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اسپتال کی ساکھ کو بچانے کی غرض سے ہزاروں بچوں کی اموات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی ) اس معاملے کی جانب از خود متوجہ ہوگئی ہے اور راجستھان حکومت کے نام نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

کمیشن نے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو جے کے لون اسپتال میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہورہی ہے۔حالانکہ اسپتال انتظامیہ نے ایک کمیٹی قائم کرکے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن تب تک خاموش نہیں رہے گا جب تک وزیر اعلیٰ کوئی معقول جواب نہیں دیتے ہیں۔

حال ہی میں میڈیا نے بڑے پیمانے پر بھارت میں طبی شعبے کی بدحالی کا موضوع اٹھایا تھا، جب بہار اور اتر پردیش کے گورکھپور اسپتال میںوبائی بیماری ( دماغی سوجن ) پھوٹنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بچوں کی اموات ہوئیں۔یہ بیماری مظفر پور سے دیگر18اضلاع میں بھی پھیل گئی تھی اورہزاروں بچوں کی اموات کے باوجود حکومت اس سانحہ پر بے بس نظر آئی ۔ طبی شعبے کی بدحالی کے تئیں حکومتی لاپرواہی کی ایسی ہی صورتحال اب راجستھان میں دیکھنے کو ملی۔

گھروں کے بجائے اسپتالوں اور طبی مراکز میں بچوں کی پیدائش یقینی بنانے کے لئے وزارت صحت و فیملی ویلفیئر نے حکومت کو کئی اقدامات کرنے کے لئے کہا تھا۔ لیکن چار سال گزرنے کے باوجود نوازئیدگان کی اموات کی شرح میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔

کسی بھی ریاست یا شہر میں سرکاری اسپتالوں کی صورتحال معیاری نہیں ہے۔ ان اسپتالوں میں افرادی قوت کی کمی ، اہم ادویات کی قلت اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے بچوں اور نوازئیدگان کی زندگیوں سے کھلواڑ ہورہا ہے۔غذائیت کی کمی ، وقت سے پہلے پیدائش اور خون کی کمی کے حوالے سے انتظامی ناکامی کی وجہ سے لوگوں ، خاص طور پر غریب آبادیوں کو شدید مصیبتیں جھیلنی پڑ رہی ہیں۔

ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک میں نوازائیدگان کی اموات میں سے پچاس فیصد بہار ، اترپردیش، راجستھان ، مدھیہ پردیش،جہار کھنڈ ، چھتیس گڑھ اور آسام کے115اضلاع میں ہوتی ہیں۔یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔بھارت طبی شعبے کے معیار کے حوالے سے چین ، سری لنکا ،نیپال ، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے کئی پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔

اگر حکومت شہریوں کو طبی سہولیات جیسا بنیادی حق فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے تو اس بات کی اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کا نظام بہتر ہوگا۔ نیشنل ہیلتھ مشن کو اس غرض سے متعارف کیا گیا تھا تاکہ شہریوں کو بہتر طبی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں اور زچہ بچہ کی اموات کی شرح کم کردی جائیں۔

حال ہی میں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سالسٹر جنرل سے پوچھا کہ نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت کیا کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ہزاروں آنگن واڑی سینٹر ، دیہی ہیلتھ مشن، اور سرکاری اسپتال موجود ہیں لیکن ان کی بدحالی کی وجہ سے پبلک ہیلتھ اور تحفظ کے حوالے سے صورتحال ابتر ہے۔بعض جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدگان کی اموات سب سے زیادہ دیہی علاقوں میں ہورہی ہیں۔ایک حالیہ سروے میں معلوم ہوا ہے کہ ملک بھر میں 54فیصد میڈیکل اور پیرا میڈیکل عملہ بڑی حد تک غیر تعلیم یافتہ ہے۔

کوٹا، گورکھپوراور مظفر پور میں رونما ہوئے سانحات کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ محض کمیٹیاں قائم کرنے اور متاثرین کی مالی مدد کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔صورتحال بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ میڈیکل اسٹاف کی خالی جگہیں پر کی جائیں ، معقول فنڈس فراہم کئے جائیں اور طبی نگہداشت کا بہتر نظام قائم کیا جائے۔ہر ریاست میں تمام طبی مراکز کو جواب دہ بنایا جانا ناگزیر ہے۔ جب تک نظام میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی تب تک طبی شعبے میں سانحات کا رونما ہونا نہیں رُک سکتا ہے


کوٹہ موجودہ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کا انتخابی حلقہ ہے۔ لیکن جس انداز میں یہاں نوازئیدہ بچوں کی اموات ہورہی ہیں ، اس سے ملعوم ہوتا ہے کہ انتخابی حلقہ طبی شعبے کے تئیں حکومت کی لاپرواہی کا ایک نمونہ بن چکا ہے۔

راجستھان کے اس شہر اور گرد نواح کے علاقوں سے بچوں کو ایمرجنسی علاج و معالجے کے لئے عمومی طور پر جے کے لون اسپتال ہی لایا جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت انتہائی تشویشناک ہے کہ صرف دسمبر کے مہینے میں اس اسپتال میں 100 سے زائد نوزائید بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔

اس معاملے پر بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر نیشنل کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال ( این سی پی آر) نے اسپتال کا معائنہ کیا اور اس بات کو منظر عام پر لایا کہ سال 2019ء میں یہاں 940بچوں کی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

ریاستی حکومت نے حیلے بہانوں سے اس معاملے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ حکومت نے بڑی بے شرمی سے کہا کہ اسپتال میں سالانہ 1300سے 1500بچو ں کی اموات ہوتی رہتی ہیں، یعنی ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ بلکہ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوٹ نے یہاں تک کہا کہ اموات کی یہ تعداد ایک معمول ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہر سال ہزاروں بچوں کی اموات ہوتی رہتی ہیں ، تو حکومت نے ان برسوں کے دوران کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔اس سوال کا جواب کسی سیاستداں کے پاس نہیں ہے۔

نیشنل کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال ( این سی پی آر) کے معائنہ سے جے کے لون اسپتال کی بدحالی کے بارے میں مزید کئی انکشافات ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کمیشن کو معلوم ہوا کہ اس اسپتال میں وینٹی لیٹرس، گرمی پہنچانے والے اور بھاپ فراہم کرنے والے آلات میں سے پچاس فیصد کام نہیں کررہے ہیں۔

معائنے کے دوران کمیشن کے اراکین یہ دیکھ کر حیران کن رہ گئے کہ اسپتال کے احاطے میں خنزیر جیسے جانور دھندناتے ہوئے گھوم پھر رہے ہیں۔اس کے برعکس اسپتال کی جانب سے جانچ کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کو کچھ نظر نہیں آیا ۔ اس کمیٹی نے اسپتال میں انفراسٹکچر کی کمی یا کسی انتظامی خامی کو خارج از امکان قرار دیا ۔یہاں تک کہ اس کمیٹی نے کہا کہ اسپتال میں تمام طبی آلات درست اور کام کرنے کی حالت میں ہیں۔اس کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اسپتال کی ساکھ کو بچانے کی غرض سے ہزاروں بچوں کی اموات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی ) اس معاملے کی جانب از خود متوجہ ہوگئی ہے اور راجستھان حکومت کے نام نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

کمیشن نے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو جے کے لون اسپتال میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہورہی ہے۔حالانکہ اسپتال انتظامیہ نے ایک کمیٹی قائم کرکے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن تب تک خاموش نہیں رہے گا جب تک وزیر اعلیٰ کوئی معقول جواب نہیں دیتے ہیں۔

حال ہی میں میڈیا نے بڑے پیمانے پر بھارت میں طبی شعبے کی بدحالی کا موضوع اٹھایا تھا، جب بہار اور اتر پردیش کے گورکھپور اسپتال میںوبائی بیماری ( دماغی سوجن ) پھوٹنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بچوں کی اموات ہوئیں۔یہ بیماری مظفر پور سے دیگر18اضلاع میں بھی پھیل گئی تھی اورہزاروں بچوں کی اموات کے باوجود حکومت اس سانحہ پر بے بس نظر آئی ۔ طبی شعبے کی بدحالی کے تئیں حکومتی لاپرواہی کی ایسی ہی صورتحال اب راجستھان میں دیکھنے کو ملی۔

گھروں کے بجائے اسپتالوں اور طبی مراکز میں بچوں کی پیدائش یقینی بنانے کے لئے وزارت صحت و فیملی ویلفیئر نے حکومت کو کئی اقدامات کرنے کے لئے کہا تھا۔ لیکن چار سال گزرنے کے باوجود نوازئیدگان کی اموات کی شرح میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔

کسی بھی ریاست یا شہر میں سرکاری اسپتالوں کی صورتحال معیاری نہیں ہے۔ ان اسپتالوں میں افرادی قوت کی کمی ، اہم ادویات کی قلت اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے بچوں اور نوازئیدگان کی زندگیوں سے کھلواڑ ہورہا ہے۔غذائیت کی کمی ، وقت سے پہلے پیدائش اور خون کی کمی کے حوالے سے انتظامی ناکامی کی وجہ سے لوگوں ، خاص طور پر غریب آبادیوں کو شدید مصیبتیں جھیلنی پڑ رہی ہیں۔

ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک میں نوازائیدگان کی اموات میں سے پچاس فیصد بہار ، اترپردیش، راجستھان ، مدھیہ پردیش،جہار کھنڈ ، چھتیس گڑھ اور آسام کے115اضلاع میں ہوتی ہیں۔یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔بھارت طبی شعبے کے معیار کے حوالے سے چین ، سری لنکا ،نیپال ، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے کئی پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔

اگر حکومت شہریوں کو طبی سہولیات جیسا بنیادی حق فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے تو اس بات کی اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کا نظام بہتر ہوگا۔ نیشنل ہیلتھ مشن کو اس غرض سے متعارف کیا گیا تھا تاکہ شہریوں کو بہتر طبی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں اور زچہ بچہ کی اموات کی شرح کم کردی جائیں۔

حال ہی میں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سالسٹر جنرل سے پوچھا کہ نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت کیا کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ہزاروں آنگن واڑی سینٹر ، دیہی ہیلتھ مشن، اور سرکاری اسپتال موجود ہیں لیکن ان کی بدحالی کی وجہ سے پبلک ہیلتھ اور تحفظ کے حوالے سے صورتحال ابتر ہے۔بعض جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدگان کی اموات سب سے زیادہ دیہی علاقوں میں ہورہی ہیں۔ایک حالیہ سروے میں معلوم ہوا ہے کہ ملک بھر میں 54فیصد میڈیکل اور پیرا میڈیکل عملہ بڑی حد تک غیر تعلیم یافتہ ہے۔

کوٹا، گورکھپوراور مظفر پور میں رونما ہوئے سانحات کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ محض کمیٹیاں قائم کرنے اور متاثرین کی مالی مدد کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔صورتحال بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ میڈیکل اسٹاف کی خالی جگہیں پر کی جائیں ، معقول فنڈس فراہم کئے جائیں اور طبی نگہداشت کا بہتر نظام قائم کیا جائے۔ہر ریاست میں تمام طبی مراکز کو جواب دہ بنایا جانا ناگزیر ہے۔ جب تک نظام میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی تب تک طبی شعبے میں سانحات کا رونما ہونا نہیں رُک سکتا ہے

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.