راجستھان کے وزیراعلی اشوک گہلوت نے کہا ہے کہ بی جے پی دوبارہ راجستھان اور مہاراشٹر میں عوام کے ذریعہ منتخب کردہ حکومت کو گرانے کا کھیل شروع کرسکتی ہے۔ان الزام کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل تیز ہو گئی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب خود وزیر اعلیٰ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مہاراشٹر میں حکومت کو گرانے کے لیے بی جے پی کی طرف سے کوشش کی جا رہی ہے اور کسی بھی وقت راجستھان کا نمبر آسکتا ہے اور ایک بار پھر سیاسی پارہ پروان چڑھ سکتا ہے۔
راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے ہفتے کے روز سروہی کے شیوگنج کانگریس دفتر میں منعقدہ ورچول افتتاحی تقریب میں دوبارہ راجستھان حکومت کو گرانے کے امکانات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اجے ماکن، کے سی وینو گوپال، رندیپ سرجے والا اور اویناش پانڈے نے راجستھان میں اپنے رہنماؤں کو برطرف نہ کیا ہوتا تو بی جے پی راجستھان حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوسکتی تھی۔ وزیراعلیٰ گہلوت نے کہا کہ کانگریس کارکنان کی دعا سے راجستھان میں حکومت محفوظ ہے، انہوں نے کہا کہ اجے ماکن 34 دن تک ہمارے ساتھ ہوٹل میں رہے، اور وہ سب کچھ جانتے ہیں کہ اس وقت کیا ہو رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کے ممبران اسمبلی نے سیاسی بغاوت کے دوران امت شاہ، دھرمیندر پردھان اور سید ظفر الاسلام سے ایک گھنٹے تک ملاقات کی، یہ وہی ظفر الاسلام ہیں، جو جیوتی رادتیہ سندھیا کو بھی بی جے پی میں لے کر گئے ہیں۔
دوسری طرف گہلوت کے اس بیان بازی سے یہ بھی صاف ہو رہا ہے کہ پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کا دعویٰ بھی کھوکھلا ہے۔
راجستھان میں سیاسی ڈرامہ
اس کے ساتھ ہی گہلوت کے بیان سے ایک بات صاف ہے کہ بھلے کی پائلٹ اور گہلوت کیمپ کے درمیان صلح کی بات ہو رہی ہو، لیکن ابھی دونوں خیموں کے دل نہیں ملے ہیں اور وزیر اعلیٰ کا حالیہ بیان صاف کر رہا ہے کہ وہ پائلٹ خیمے کے ساتھ اب بھی صلح کے موڈ میں نہیں ہے۔ آج ہم آپ کو بتا دیں کہ راجستھان میں کیا واقعی حالات ایسے ہیں کہ راجستھان میں کانگریس حکومت کا تختہ پلٹ سکتا ہے۔
امت شاہ پر اشوک گہلوت کے الزام
وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پریس کانفرنس میں امت شاہ پر الزام عائد کیا کہ وہ لگاتار غیر بی جے پی ریاستوں کے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے صاف کہا کہ شاہ نے ان کے اراکین اسمبلی کو بھی لالچ دیا تھا کہ وہ ریاستی حکومت کو گرا دیں۔
سمجھوتے کے چار ماہ بعد بھی پائلٹ خیمے کے ہاتھ کھالی
راجستھان میں کانگریس کی لڑائی وزیر اعلیٰ عہدے کی ہے، یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ یہ باتیں بھی ظاہر ہے کہ ریاستی کانگریس گہلوت اور پائلٹ خیمے میں بٹی ہوئی ہے۔ بھلے ہی کانگریس کے اعلیٰ کمان کے بیچ۔ بچاؤ کے بعد راجستھان میں پائلٹ کیمپ نے واپسی کر لی اور گہلوت حکومت گرنے سے بچ گئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ تو ان چار مہینوں میں اب تک سچن پائلٹ کو عہدہ نہیں ملا اور نہ ہی ان 18 اراکین اسمبلی کو جو اپنے عہدے اور وقار دونوں کھو چکے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ ویشویندر سنگھ اور رمیش مینا کی کابینہ کے عہدے گئے تو مکیش بھاکر کو یوتھ کانگریس صدر اور راکیش پاریک کو سیوادل کے صدر کے عہدے چلے گئے۔ یہ فی الحال حاشیے پر دکھائی دے رہے ہیں۔ باقی بچے اراکین اسمبلی میں سے کچھ کو کو بھلے ہی پنچایتی راج الیکشن اور نگر نگم الیکشن میں نگراں کے طور پر ذمہداری دی گئی ہو، لیکن ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ ایسے میں بی جے پی جو لگاتار کہ رہی ہے کہ کانگریس پارٹی میں جوالا مکھی ابل رہی ہے جو کبھی بھی پھوٹ سکتا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صاف ہے کہ جو رکن اسمبلی ایک بار پہلے قیادت بدلنے کو لیکر بغاوت کر چکے ہوں تو وہ حالات کے نہیں سدھرنے پر دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں۔
کابینہ میں توسیع نہیں ہونا بھی بڑھا رہا ہے کانگریس رہنماؤں کی مایوسی
اس پورے معاملے میں راجستھان کی حکومت کو 17 دسمبر کو دو سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پائلٹ خیمے میں ہی نہیں بلکہ گہلوت کیمپ کے اراکین اسمبلی میں مایوسی چھانے لگی ہے۔ سایسی گہماگہمی کے دوران گہلوت کے ساتھ رہے اراکین اسمبلی کو حکومت میں حصہ داری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کے لیے نہ تو اب تک ریاست میں کوئی کابینہ کی توسیع ہوئی ہے اور نہ ہی اراکین اسمبلی کو سیاسی تقرری کے طور پر ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔ ایسے میں فکر یہ بھی ہے کہ کوئی ناراض خیمہ نہ بن جائے۔ ایسے میں گہلوت نے یہ فارمولہ تو بنایا ہے کہ رکن اسمبلی کو اقتدار میں حصہداری دی جائے گی۔ لیکن اس فارمولے کو اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔
گہلوت حکومت کے دو سال مکمل ہونے جارہے ہیں۔ ہر ایم ایل اے منتظر ہے کہ ریاست کی کابینہ میں توسیع ہو، کیونکہ گہلوت وزارت میں سچن پائلٹ، رمیش مینا اور ویشویندر سنگھ کو عہدے سے برخاست کیے جانے اور وزیر ماسٹر بھنورلال کے انتقال کے بعد گہلوت حکومت میں وزیر اعلیٰ سمیت کل 21 وزیر ہیں۔ ان میں نو اور وزرا کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
گہلوت وزارت میں جگہ ہونے کے بعد بھی اب تک کابینہ کی توسیع نہیں ہونے کے پیچھے یہی کہا جا رہا ہے کہ گہلوت نہیں چاہتے کہ برخاست وزرا کو پھر سے کابینہ میں حصہ داری دی جائے، نہ ہی ان اراکین اسمبلی کو جو گہلوت سے ناراض ہو کر پائلٹ کے ساتھ گئے تھے۔
ایسے میں کابینہ میں توسیع کی دیری کی وجہ یہ بھی ہے کہ گہلوت لگاتار جن اراکین اسمبلی کو حکومت گرانے میں بی جے پی کے سازش کا حصہ بتا رہے ہیں، انہیں وہ کابینہ میں حصہ کیسے دیں۔ ویسے بھی اگر ان اراکین اسمبلی کو حکومت میں حصہداری دی جاتی ہے تو گہلوت آزاد اور دیگر پارٹیون کے ان اراکین اسمبلی کو کیسے جگہ دسکیں گے جو ناسازگار حالات میں ان کے ساتھ کھڑے رہے تھے۔
بی ای پی کے اراکین اسمبلی نے کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، اس سے ریاست میں کانگریس کے اراکین اسمبلی کی تعداد 107 ہو گئی تھی۔ جس میں سے 19 اراکین اسمبلی کے بغاوت کرنے سے یہ تعداد کم ہو کر 88 رہ گئی تھی۔ جس میں 10 آزاد، دو بی ٹی پی، ایک آر ایل ڈی اور دو سی پی آئی کے اراکین اسمبلی کو جوڑ کر یہ تعداد 103 ہو گئی تھی۔ حالانکہ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرتے وقت کانگریس کے راجستھان کے دونوں خیمے ایک ہوگئے تو ووٹنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور آسانی سے کانگریس نے اپنی اکثریت اسمبلی میں ثابت کر دی۔ لیکن اب اگر پھر ویسے حالات بنتے ہیں تو کانگریس کے دو اراکین اسمبلی کیلاش تریویدی اور ماسٹر بھنورلال میگھوال کے انتقال کے بعد کانگریس کے اراکین اسمبلی کی تعداد پہلے سے کم ہو گئی ہے۔
راجستھان میں حکومت گہلوت نے حکومت کو ایک بار بچا لیا، لیکن کانگریس پارٹی میں مرکزی سطح پر بھی سیاست افان پر ہے۔ کانگریس کا صدر کون ہوگا ، اسے لیکر بھی تجسس بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ موجودہ حالات میں اشوک گہلوت سے بھروسہ مند رہنما کانگریس اور گاندھی خاندان کے پاس نہیں ہے، جو یہ عہدہ سنبھال سکے۔ لیکن گہلوت خود راجستھان میں رہنا چاہتے ہین۔ ایسے میں انہوں نے کانگریس کے اعلیٰ رہنماؤں کو اشارہ بھی دے دیا ہے کہ ان کے بغیر راجستھان میں حکومت نہیں چل سکے گی۔ بی جے پی سازش کر اسے گرا دے گی۔ ایسے میں گہلوت دہلی کو یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ انہیں دہلی کی سیاست سے دور رکھا جائے۔ اگر انہیں دہلی میں کوئی عہدہ دینا بھی ہے تو اس کے ساتھ انہیں راجستھان کی ذمہداری بھی برقرار رکھی جائے۔
ادھر کانگریس میں چل رہی سیاسی گہما گہمی کے بیچ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سچن پائلٹ کو اے ۤئی سی سی میں کوئی بڑا عہدہ دیا جا سکتا ہے۔ انہیں عبعری صدر یا جنرل سیکرٹری جیسے عہدے دیے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی راجستھان میں بغاوت کر رہے رہنماؤں کا دخل حکومت میں بڑھ جائے گا۔
مزید پڑھیں:
’بی جے پی راجستھان اور مہاراشٹر حکومت کو گرانے کی سازش کر رہی ہے‘
مانا جا رہا ہے کہ اسی سیاسی قیاس آرائیوں کے درمیان گہلوت نے دوبارہ اس بات کو ہوا دی ہے کہ اس وقت اراکین اسمبلی کو برخاست نہیں کیا جاتا تو راجستھان میں حکومت گر جاتی اور بغاوت کر رہے رکن اسمبلی امت شاہ کے رابطے میں تھے۔ مطلب صاف ہے کہ ان کا حملہ سیدھے طور پر سچن پائلٹ پر ہی تھا جنہٰں اس وقت عہدے سے برخاست کیا گیا تھا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ رمیش مینا اور ویشویندر سنگھ اور بقیہ اراکین اسمبلی محض پائلٹ کے حمایتی تھے۔