ETV Bharat / state

آزادی سیریز: راجستھان میں انقلاب کا بیج بونے والا کیسری خاندان

راجستھان کا بارہٹھ خاندان، جس نے بھارت کی سرزمین کو برطانوی قوتوں کی گرفت سے آزاد کرانے کے لیے انقلاب کی مشعل کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔ یہ کہانی اس باپ، بیٹے اور بھائی کی ہے جنہوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں انگریز مخالف سرگرمیوں میں حصہ لے کر اور لوک گیت کے ذریعہ انقلاب کا بیج بویا۔ اس پورے خاندان نے اپنی زندگی بھارت کی آزادی کے نام کر دی۔ ای ٹی وی بھارت اس انقلابی خاندان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، جن کا خواب صرف اور صرف بھارت کو آزاد کرانا تھا۔

راجستھان میں انقلاب کا بیج بونے والا کیسری خاندان
راجستھان میں انقلاب کا بیج بونے والا کیسری خاندان
author img

By

Published : Oct 23, 2021, 6:14 AM IST

بھارت کی آزادی کے 75 سال کے جشن کے موقع پر ای ٹی وی بھارت پورے ملک سے بھارت کی آزاد کی جدوجہد کی کہانیاں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ اس ہفتہ ہم راجستھان کے اس بارہٹھ خاندان کی کہانی کو پیش کر رہے ہیں، جنہوں نے بھارت کے نقشے سے برطانوی حکمرانوں کے پرچم کو ہٹانے کے لیے انقلاب کا راستہ اختیار کیا۔

یہ کہانی ہے ایک باپ، ایک بیٹے اور بھائی کی، جنہوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں لوک گیتوں اور اپنے جنون سے انقلاب کا بیج بویا۔ اس پورے خاندان نے اپنی زندگی بھارت اور بھارت کے عوام کی آزادی کے لیے وقف کردی۔شاعر کیسری سنگھ بارہٹھ اور ان کے خاندان کی قربانی کی داستان آج بھی ہر راجستھانی کے دل میں گونجتی ہے۔ لیکن ان مشہور اور دلیر شخصیات کا وجود صرف راجستھان کی سرحدوں تک محدود ہے۔

راجستھان میں انقلاب کا بیج بونے والا کیسری خاندان

اس خاندان میں سے ایک کیسری سنگھ بارہٹھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ بارہٹھ 25 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔ بھارت کے عظیم مجاہدین آزادی بھگت سنگھ، سکھ دیپ تھاپر اور شورام راج گرو جیسے مشہور انقلابیوں کو پھانسی دینے سے 13 سال قبل انہوں نے اپنی زندگی بھارت کی آزادی کے نام وقف کردی تھی۔

جہاں بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کو سنہ 1931 میں پھانسی دی گئی تھی، وہیں سنہ 1918 میں لارڈ ہارڈنگ کے جلوس پر بم پھینکنے کے جرم میں پرتاپ سنگھ کی جیل میں موت واقع ہوگئی۔ اس واقعہ کو بھارتی تاریخ کے صفحات میں دہلی کانسپریسی کیس کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ وہ پہلا واقعہ بھی ہے، جس کے بعد انگریزوں نے بھارت چھوڑنے کا دباؤ محسوس کیا تھا۔

کیسری سنگھ بارہٹھ کون تھے؟

کیسری سنگھ بارہٹھ کی پیدائش 21 نومبر 1872 کو شاہ پورا کے ایک امیر خاندان میں ہوئی، وہ ایک شاعر اور اسکالر تھے۔ طاقت، عقیدت اور قربانی کے جذبے سے سرشار شاہ پورا کی مٹی میں کھیلتے ہوئے انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ راجستھان کے بھلواڑاہ ضلع کے شاہ پورا علاقے کے دیو کھیڑا کے وہ جاگیردار تھے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے شہید پرتاپ سنگھ بارہٹھ سنتستھان کے سیکریٹری کیلاش سنگھ جاداوت نے راش بہاری بوس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیسری سنگھ بارہٹھ کے علاوہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس نے اپنے بیٹے کو انقلاب کی راہ قبول کرنے کی ترغیب دی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'نہ صرف ان کے بیٹے پرتاپ سنگھ بلکہ ان کے بھائی زوراور سنگھ نے بھی انقلاب کا پرچم اٹھایا اور ملک کے لیے اپنی جان قربان کیں۔

کیسری سنگھ اپنی تحریر اور تصنیف سے اکثر برطانوی حکمرانوں کو چیلنج کرتے تھے۔ خاص طور سےکیسری سنگھ کے ذریعہ لکھی گئی سورٹھ 'چیتاونی را چُنگٹیا' کو سن کر برطانوی حکمران حیران و پریشان ہوگئے تھے۔ یہ سورٹھ گا کر کیسری سنگھ نے انقلاب کا اعلان کردیا تھا۔

وطن کی آزادی اور حب الوطنی کو اپنی تحریروں میں جگہ دینے کے سبب انگریزوں نے کیسری سنگھ کو ہمیشہ کے لیے ہٹ لسٹ کردیا اور ان پر ایک مخبر مقرر کردیا۔ لیکن کوئی بھی چیز انہیں، ان کے بیٹے اور ان کے بھائی کو اپنی منزل حاصل کرنے سے روک نہیں پائی۔ بعد میں کیسری کو مہنت پیارے لال کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں بہار کے ہزاری باغ میں 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا انتقال 14 اگست 1941 کو ہوا۔

مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کی وابستگی

کیسری سنگھ کی حویلی تحریک آزادی کی حکمت عملی تیار کرنے کا ایک خفیہ ٹھکانہ تھا۔ انقلابی اور جنونی خیالات رکھنے کے باوجود انہوں نے مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک کی مکمل حمایت کی۔ گاندھی نے انہیں نمک مارچ کے لیے بھی منتخب کیا تھا۔

سینئر صحافی مول چند پیسوانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ' پورے خاندان نے ڈانڈی یاترا میں حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی کی ہدایت پر ان کے پاس میواڑ ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اسی درمیان جب میواڑ کے مہارانا برطانوی حکمران کے حکم پر دہلی جا رہے تھے، تب کیسری سنگھ نے مہارانا کو ایک انتباہی خط لکھا تھا۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد میواڑ کے مہارانا برطانوی حکمرانوں سے ملاقات کے بغیر ہی واپس میواڑ لوٹ آئے۔

وہ مجاہد آزادی، جنہوں نے گمنامی میں آخری سانس لی

پرتاپ سنگھ ایک ایسے گروہ کا حصہ ہوئے، جس نے 3 دسمبر 1912 کو بھارت کے وائسرائے لارڈ ہارڈنگ پر بم حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب برٹش انڈیا اپنے دارالحکومت کو کلکتہ سے نئی دہلی منتقل کر رہا تھا۔ اس گروہ میں پرتاپ سنگھ کے چچا زوراور سنگھ بارہٹھ بھی شامل تھے۔ اس الزام میں ہی پرتاپ سنگھ کو گرفتار کیا گیا اور بریلی سنٹرل جیل میں انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے نام پولیس کے سامنے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

انگریزوں نے انہیں نوکری اور پورے خاندان کو آزادی دینے کا لالچ دیا، لیکن وہ اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور برطانوی حکمرانوں کو کوئی بھی جانکاری نہیں دی۔ جب انگریز حکومت کی تمام کوششیں ناکام ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ' تمہاری ماں تمہارے لیے رو رہی ہے، جس کے جواب میں پرتاپ سنگھ نے جواب دیا کہ 'میں اپنی ماں کا رونا روکنے کے لیے ہزار ماؤں کو رونے نہیں دے سکتا'۔ اس بہادر نوجوان نے 24 مئی 1918 کو جیل میں گمنامی کی حالت میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔

انگریز ان کی شہادت سے اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے پرتاپ سنگھ بارہٹھ کی آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے ان کی لاش کو جیل میں دفن کردیا۔اس کے علاوہ زوراور سنگھ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان کے مالوا میں 27 برسوں تک آزادی کا پیغام عام کرنے کا طویل سفر طئے کیا۔ ان کا انتقال 17 اکتوبر1939 کو ہوا۔

اگلی نسل

ای ٹی وی بھارت نے کیسری سنگھ کی بڑی پوتی سرلا کنور سے بھی ملاقات کی۔انہوں نے کہا کہ 'وہ بارہٹھ خاندان کی رکن ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ میں اپنے آباؤ اجداد کی شہادت پر فخر محسوس کرتی ہوں، جنہوں نےملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردی'۔

بھارت کی تحریک آزادی کی تاریخ میں انمٹ نشان چھوڑنے والے اس انقلابی خاندان کی بہادری کی کہانی آج بھی راجستھان کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔

بھارت کی آزادی کے 75 سال کے جشن کے موقع پر ای ٹی وی بھارت پورے ملک سے بھارت کی آزاد کی جدوجہد کی کہانیاں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ اس ہفتہ ہم راجستھان کے اس بارہٹھ خاندان کی کہانی کو پیش کر رہے ہیں، جنہوں نے بھارت کے نقشے سے برطانوی حکمرانوں کے پرچم کو ہٹانے کے لیے انقلاب کا راستہ اختیار کیا۔

یہ کہانی ہے ایک باپ، ایک بیٹے اور بھائی کی، جنہوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں لوک گیتوں اور اپنے جنون سے انقلاب کا بیج بویا۔ اس پورے خاندان نے اپنی زندگی بھارت اور بھارت کے عوام کی آزادی کے لیے وقف کردی۔شاعر کیسری سنگھ بارہٹھ اور ان کے خاندان کی قربانی کی داستان آج بھی ہر راجستھانی کے دل میں گونجتی ہے۔ لیکن ان مشہور اور دلیر شخصیات کا وجود صرف راجستھان کی سرحدوں تک محدود ہے۔

راجستھان میں انقلاب کا بیج بونے والا کیسری خاندان

اس خاندان میں سے ایک کیسری سنگھ بارہٹھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ بارہٹھ 25 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔ بھارت کے عظیم مجاہدین آزادی بھگت سنگھ، سکھ دیپ تھاپر اور شورام راج گرو جیسے مشہور انقلابیوں کو پھانسی دینے سے 13 سال قبل انہوں نے اپنی زندگی بھارت کی آزادی کے نام وقف کردی تھی۔

جہاں بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کو سنہ 1931 میں پھانسی دی گئی تھی، وہیں سنہ 1918 میں لارڈ ہارڈنگ کے جلوس پر بم پھینکنے کے جرم میں پرتاپ سنگھ کی جیل میں موت واقع ہوگئی۔ اس واقعہ کو بھارتی تاریخ کے صفحات میں دہلی کانسپریسی کیس کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ وہ پہلا واقعہ بھی ہے، جس کے بعد انگریزوں نے بھارت چھوڑنے کا دباؤ محسوس کیا تھا۔

کیسری سنگھ بارہٹھ کون تھے؟

کیسری سنگھ بارہٹھ کی پیدائش 21 نومبر 1872 کو شاہ پورا کے ایک امیر خاندان میں ہوئی، وہ ایک شاعر اور اسکالر تھے۔ طاقت، عقیدت اور قربانی کے جذبے سے سرشار شاہ پورا کی مٹی میں کھیلتے ہوئے انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ راجستھان کے بھلواڑاہ ضلع کے شاہ پورا علاقے کے دیو کھیڑا کے وہ جاگیردار تھے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے شہید پرتاپ سنگھ بارہٹھ سنتستھان کے سیکریٹری کیلاش سنگھ جاداوت نے راش بہاری بوس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیسری سنگھ بارہٹھ کے علاوہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس نے اپنے بیٹے کو انقلاب کی راہ قبول کرنے کی ترغیب دی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'نہ صرف ان کے بیٹے پرتاپ سنگھ بلکہ ان کے بھائی زوراور سنگھ نے بھی انقلاب کا پرچم اٹھایا اور ملک کے لیے اپنی جان قربان کیں۔

کیسری سنگھ اپنی تحریر اور تصنیف سے اکثر برطانوی حکمرانوں کو چیلنج کرتے تھے۔ خاص طور سےکیسری سنگھ کے ذریعہ لکھی گئی سورٹھ 'چیتاونی را چُنگٹیا' کو سن کر برطانوی حکمران حیران و پریشان ہوگئے تھے۔ یہ سورٹھ گا کر کیسری سنگھ نے انقلاب کا اعلان کردیا تھا۔

وطن کی آزادی اور حب الوطنی کو اپنی تحریروں میں جگہ دینے کے سبب انگریزوں نے کیسری سنگھ کو ہمیشہ کے لیے ہٹ لسٹ کردیا اور ان پر ایک مخبر مقرر کردیا۔ لیکن کوئی بھی چیز انہیں، ان کے بیٹے اور ان کے بھائی کو اپنی منزل حاصل کرنے سے روک نہیں پائی۔ بعد میں کیسری کو مہنت پیارے لال کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں بہار کے ہزاری باغ میں 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا انتقال 14 اگست 1941 کو ہوا۔

مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کی وابستگی

کیسری سنگھ کی حویلی تحریک آزادی کی حکمت عملی تیار کرنے کا ایک خفیہ ٹھکانہ تھا۔ انقلابی اور جنونی خیالات رکھنے کے باوجود انہوں نے مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک کی مکمل حمایت کی۔ گاندھی نے انہیں نمک مارچ کے لیے بھی منتخب کیا تھا۔

سینئر صحافی مول چند پیسوانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ' پورے خاندان نے ڈانڈی یاترا میں حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی کی ہدایت پر ان کے پاس میواڑ ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اسی درمیان جب میواڑ کے مہارانا برطانوی حکمران کے حکم پر دہلی جا رہے تھے، تب کیسری سنگھ نے مہارانا کو ایک انتباہی خط لکھا تھا۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد میواڑ کے مہارانا برطانوی حکمرانوں سے ملاقات کے بغیر ہی واپس میواڑ لوٹ آئے۔

وہ مجاہد آزادی، جنہوں نے گمنامی میں آخری سانس لی

پرتاپ سنگھ ایک ایسے گروہ کا حصہ ہوئے، جس نے 3 دسمبر 1912 کو بھارت کے وائسرائے لارڈ ہارڈنگ پر بم حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب برٹش انڈیا اپنے دارالحکومت کو کلکتہ سے نئی دہلی منتقل کر رہا تھا۔ اس گروہ میں پرتاپ سنگھ کے چچا زوراور سنگھ بارہٹھ بھی شامل تھے۔ اس الزام میں ہی پرتاپ سنگھ کو گرفتار کیا گیا اور بریلی سنٹرل جیل میں انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے نام پولیس کے سامنے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

انگریزوں نے انہیں نوکری اور پورے خاندان کو آزادی دینے کا لالچ دیا، لیکن وہ اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور برطانوی حکمرانوں کو کوئی بھی جانکاری نہیں دی۔ جب انگریز حکومت کی تمام کوششیں ناکام ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ' تمہاری ماں تمہارے لیے رو رہی ہے، جس کے جواب میں پرتاپ سنگھ نے جواب دیا کہ 'میں اپنی ماں کا رونا روکنے کے لیے ہزار ماؤں کو رونے نہیں دے سکتا'۔ اس بہادر نوجوان نے 24 مئی 1918 کو جیل میں گمنامی کی حالت میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔

انگریز ان کی شہادت سے اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے پرتاپ سنگھ بارہٹھ کی آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے ان کی لاش کو جیل میں دفن کردیا۔اس کے علاوہ زوراور سنگھ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان کے مالوا میں 27 برسوں تک آزادی کا پیغام عام کرنے کا طویل سفر طئے کیا۔ ان کا انتقال 17 اکتوبر1939 کو ہوا۔

اگلی نسل

ای ٹی وی بھارت نے کیسری سنگھ کی بڑی پوتی سرلا کنور سے بھی ملاقات کی۔انہوں نے کہا کہ 'وہ بارہٹھ خاندان کی رکن ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ میں اپنے آباؤ اجداد کی شہادت پر فخر محسوس کرتی ہوں، جنہوں نےملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردی'۔

بھارت کی تحریک آزادی کی تاریخ میں انمٹ نشان چھوڑنے والے اس انقلابی خاندان کی بہادری کی کہانی آج بھی راجستھان کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.