پنجاب یونیورسٹی میں بیرونی زبانوں کے شعبے میں اردو کو شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آج ایک اجلاس ہوگا۔ محکمہ اردو کے طلباء اور اساتذہ نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبہ اردو کے کوآرڈینیٹر عباس علی نے کہا کہ 'یونیورسٹی کا فیصلہ نامناسب ہے اور اردو کو غیر ملکی زبانوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے'۔
یونیورسٹی کے اس فیصلے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی ایک ٹویٹ کیا۔ وزیر اعلی نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
کیپٹن امریندر سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ 'یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پی یو کی انتظامیہ نے اردو کو 'اسکول آف فاران لینگویجز ' کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی زبانوں میں سے اردو بھی ایک بھارتی زبان ہے۔ اس فیصلے پر فوری طور پر جائزہ لینے کے لیے وائس چانسلر اور سینیٹرز سے بات کریں گے '۔
بتادیں کہ ملک بھر میں جہاں وزیر داخلہ امت شاہ کے 'ایک ملک ۔ ایک زبان ' والے بیان پر تنازعہ چل رہا ہے، وہیں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے اردو کو غیر ملکی زبانوں کے شعبے میں شامل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے اردو ذریعہ تعلیم ختم کئے جانےکا معاملہ سامنے آیا۔ جس کے بعد ریاست میں برسر اقتدار کانگریس کے رکن اسمبلی راج کمار ویرکا نے پنجاب یونیورسٹی کے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
مزید پڑھیں : پنجاب یونیورسٹی میں اردو غیر ملکی زبان!
کل ہند مجلس اتحاد المسلیمن کے صدر و ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ 'ملک کے آئین کے ذریعہ تسلیم شدہ زبان 'غیر ملکی' نہیں ہے۔ کم سے کم 5 ریاستوں میں اردو کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے'۔
اویسی نے لکھا کہ 'اپنی ہی زبان اپنے گھر میں غیر ملکی نہیں ہوسکتی ہے'۔ مزید لکھا کہ 'پنجاب یونیورسٹی کے لیے ہوم ورک ہے کہ اردو بولنے والوں کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا نام بتائیں'۔
واضح رہے کہ بھارتی کرنسی پر پندرہ بھارتی دستوری زبانوں کا اندراج ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔
سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مجموعی طور پر 2.15 کروڑ سے زیادہ اردو بولنے والے ہیں۔