پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ پروفیسر پریم سنگھ چندومجرا نے اس سلسلے میں سکھبیر سنگھ بادل کا لکھا ہوا ایک خط منگل کے روز سری نگر میں حد بندی کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) رنجنا پرکاش دیسائی کے حوالے کیا۔
ایس اے ڈی نے کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ سری نگر میں دو اور جموں میں تین نشستیں جموں میں سکھ برادری کے لیے محفوظ کرنے پر غور کرے۔ ایس اے ڈی نے ایک مکتوب میں لکھا کہ "کمیشن نے اس مطالبے پر سکھ برادری کے تئیں ہمدردی کے کے ساتھ غور کرے۔"
سکھبیر بادل نے مکتوب میں لکھا ہے کہ "ملک کی تقسیم کے وقت سمیت متعدد بار جموں وکشمیر کی سکھ آبادی سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ جمہوری عمل میں ان کی معاشرتی اور معاشی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدام کیے جائیں گے۔
یہاں تک کہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ جموں و کشمیر کی مقننہ میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں اینگلو انڈین برادری کی طرز پر سکھ برادری کے ارکان کے لیے نشستوں کی مخصوص تعداد مختص ہوگی۔
افسوس کی بات ہے کہ اس وقت کی کانگریس حکومت نے تقسیم وطن کے بعد سکھ برادری سے کیے گئے کسی بھی وعدے کی پاسداری نہیں کی۔''
کمیشن سے اس 'تاریخی غلط' کو درست کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بادل نے لکھا کہ نششتیں مختص کرنے سے جموں وکشمیر میں ایگزیکٹو فیصلوں کے وقت سکھوں کی آواز کو بھی ملحوظ نظر رکھا جائے گا۔"
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سکھوں کو ایک طویل عرصے سے شکایت تھی کہ وہ ترقیاتی عمل میں پیچھے رہ جا رہے ہیں کیونکہ جموں وکشمیر میں سکھوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود ملازمتوں میں کوئی ریزرویشن نہیں رکھی گئی ہے۔
"تعلیمی اداروں میں ریزرویشن سمیت ان تمام امور پر فیصلوں سے سکھوں کو اپنی بات رکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔"
چندرومجرا نے کمیشن کے ممبروں کو سکھوں کے امور سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے ساتھ سکھ برادری کا تاریخی اور ثقافتی تعلق ہے۔
مزید پڑھیں:
چندومجرا نے کمیشن کو بتایا کہ "ملک کی تقسیم اور سنگھ پورہ کے واقعہ سمیت سکھ برادری کے لوگوں کے اجتماعی قتل جیسے ہولناک واقعات اور ہنگاموں کے باوجود، یہ کمیونٹی جموں و کشمیر کا لازمی حصہ بنی ہوئی ہے ،"