ETV Bharat / state

Watermills on Verge of Extinction: کشمیر میں پن چکیاں معدوم ہونے کے درپے

author img

By

Published : May 30, 2022, 9:23 PM IST

وادی کشمیر میں پن چکی کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ ضلع پلوامہ سمیت وادی کے کئی اضلاع میں پن چکیاں قائم ہیں تاہم دور جدید میں مشینری کے بڑھتے استعمال سے پن چکیاں بند ہونے کے درپے ہیں۔ Watermills in Kashmir

Kashmir Watermills
Kashmir Watermills

پلوامہ: آج کے دور جدید میں گیہوں، چاول سمیت دیگر غذائی اجناس کو پیسنے کے لیے عام طور پر بجلی یا ڈیزل سے چلنے والی مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں آج کے دور میں بھی پن چکیاں قائم ہیں۔ Watermills in Kashmir ضلع پلوامہ کے ترچھل، دربگام، مورن سمیت متعدد علاقوں میں آج بھی پن چکیاں موجود ہیں، تاہم پن چکیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ مشینری کے بڑھتے استعمال، سکڑتے آبی ذخائر اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث پن چکیاں بند ہونے کے درپے ہیں۔

کشمیر میں پن چکیاں معدوم ہونے کے درپے

پن چکی مالکان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی دور میں جہاں جہاں تیز رفتار سے چلنے والی چکیاں یا فلور ملز کا رواج روز افزوں بڑھتا جا رہا ہے وہیں متعدد افراد پن چکیوں پر ہی گیہوں وغیرہ پیسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ Watermills on Verge of Extinction

ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک پن چکی کے مالک نے کہا کہ وہ پشتوں سے ہی پن چکی سے اپنا روزگار کما رہے ہیں تاہم مہنگائی کے اس دور اور پن چکی سے ہونے والی محدود آمدنی سے بمشکل انکا گزارا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے صدیوں پرانی اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے۔ Watermills in Kashmir on Verge of Extinction

انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی مدد سے چھوٹی بڑی پن چکیاں قائم کرنے سے نہ صرف بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا ہوگا بلکہ پن چکیوں کے نزدیک چھوٹے پاور ہاؤس قائم کرکے بجلی کے بحران پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘

ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک پن چکی کے مالک نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پن چکی وراثت میں ملی ہے اور وہ آبا و اجداد کے کام کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں تاہم انہوں نے حکومت سے اس ضمن میں تعاون کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’اس علاقے میں کم از کم 10 پن چکیاں موجود تھیں جو آہستہ آہستہ بند ہو گئیں اور اب علاقے میں صرف ایک ہی پن چکی ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: پلوامہ: آبی پناہ گاہ میں پونٹون کشتی نصب

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’دیگر ریاستوں سے درآمد کیا جانے والے آٹے اور دیگر مصالحہ جات میں ملاوٹ کا احتمال ہوتا ہے، وہیں پن چکی کا آٹا وغیرہ نہ صرف صاف و شفاف بلکہ درآمدات کے مقابلے میں کافی لذیذ بھی ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے پن چکوں کو پروموٹ کرنے اور صدیوں پرانے اس ورثہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے کی اپیل کی۔

پن چکی جسے کشمیری میں ’آبہء گریٹہء‘‘ کہتے ہیں، پانی کے تیز بہاؤ اور پریشر سے چلتی ہے۔ پن چکی کو عموماً ایسی نہروں اور نالوں کے قریب نصب کیا جاتاہے جہاں پانی کی مقدار بھی زیادہ اور بہاؤ بھی تیز ہو۔ Kashmir Watermillsپن چکی قلیل رقم اور چھوٹی اراضی پر بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے تعاون سے بے روزگار نوجوانوں کے لئے روزگارحاصل کرنے کا ایک بہترین وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔

پلوامہ: آج کے دور جدید میں گیہوں، چاول سمیت دیگر غذائی اجناس کو پیسنے کے لیے عام طور پر بجلی یا ڈیزل سے چلنے والی مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں آج کے دور میں بھی پن چکیاں قائم ہیں۔ Watermills in Kashmir ضلع پلوامہ کے ترچھل، دربگام، مورن سمیت متعدد علاقوں میں آج بھی پن چکیاں موجود ہیں، تاہم پن چکیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ مشینری کے بڑھتے استعمال، سکڑتے آبی ذخائر اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث پن چکیاں بند ہونے کے درپے ہیں۔

کشمیر میں پن چکیاں معدوم ہونے کے درپے

پن چکی مالکان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی دور میں جہاں جہاں تیز رفتار سے چلنے والی چکیاں یا فلور ملز کا رواج روز افزوں بڑھتا جا رہا ہے وہیں متعدد افراد پن چکیوں پر ہی گیہوں وغیرہ پیسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ Watermills on Verge of Extinction

ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک پن چکی کے مالک نے کہا کہ وہ پشتوں سے ہی پن چکی سے اپنا روزگار کما رہے ہیں تاہم مہنگائی کے اس دور اور پن چکی سے ہونے والی محدود آمدنی سے بمشکل انکا گزارا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے صدیوں پرانی اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے۔ Watermills in Kashmir on Verge of Extinction

انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی مدد سے چھوٹی بڑی پن چکیاں قائم کرنے سے نہ صرف بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا ہوگا بلکہ پن چکیوں کے نزدیک چھوٹے پاور ہاؤس قائم کرکے بجلی کے بحران پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘

ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک پن چکی کے مالک نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پن چکی وراثت میں ملی ہے اور وہ آبا و اجداد کے کام کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں تاہم انہوں نے حکومت سے اس ضمن میں تعاون کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’اس علاقے میں کم از کم 10 پن چکیاں موجود تھیں جو آہستہ آہستہ بند ہو گئیں اور اب علاقے میں صرف ایک ہی پن چکی ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: پلوامہ: آبی پناہ گاہ میں پونٹون کشتی نصب

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’دیگر ریاستوں سے درآمد کیا جانے والے آٹے اور دیگر مصالحہ جات میں ملاوٹ کا احتمال ہوتا ہے، وہیں پن چکی کا آٹا وغیرہ نہ صرف صاف و شفاف بلکہ درآمدات کے مقابلے میں کافی لذیذ بھی ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے پن چکوں کو پروموٹ کرنے اور صدیوں پرانے اس ورثہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے کی اپیل کی۔

پن چکی جسے کشمیری میں ’آبہء گریٹہء‘‘ کہتے ہیں، پانی کے تیز بہاؤ اور پریشر سے چلتی ہے۔ پن چکی کو عموماً ایسی نہروں اور نالوں کے قریب نصب کیا جاتاہے جہاں پانی کی مقدار بھی زیادہ اور بہاؤ بھی تیز ہو۔ Kashmir Watermillsپن چکی قلیل رقم اور چھوٹی اراضی پر بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے تعاون سے بے روزگار نوجوانوں کے لئے روزگارحاصل کرنے کا ایک بہترین وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.