پلوامہ (جموں کشمیر) : گزشتہ کئی برسوں کے دوران وادی کشمیر میں عوامی اور سرکاری سطح پر کھیل کود کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس کے مثبت اقدامات بھی زمینی سطح پر نظر آرہے ہیں اور اب نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی کھیل کود میں اپنا جوہر دکھا رہی ہیں جس سے ایک روشن مستقبل کی امید قائم کی جا سکتی ہے۔ ایسی ہی مثال پیش کرنے والی ننھی تھنگتھا کھلاڑی جسوین کور کی ہے۔
جنوبی کشمیر کے ترال علاقے سے تعلق رکھنے والی ننہی تھنگتھا کھلاڑی جسوین کور نے حال میں یو ٹی سطح پر منعقدہ چمپیئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کر کے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ’’زرا نم ہو تو یہ مٹی زرخیز ہے ساقی۔‘‘ جسوین کور نامی اس ننھی کھلاڑی کے گھر میں جیسے دیوالی آچکی ہے اور اعزہ و اقارب مبارکباد دینے کے لیے جوق در جوق جسوین کے گھر کا رخ کر رہے ہیں۔
چھتروگام، ترال کی رہنے والی جسوین کور(Jasleen kour) پانچویں جماعت کی طالبہ ہے اور بچپن سے ہی کھیل کود کی شوقین رہی ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران جسوین نے بتایا کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود ضروری ہے، کیونکہ معاشرے میں اس وقت منشیات کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور کھیل کود ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔
جسوین کا مزید کہنا تھا کہ ’’ترال میں کھیل کود کے حوالے سے اگرچہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس میں بہتری کی مزید گنجائش ہے۔‘‘ جسوین کے مطابق اسکا خواب ہے کہ وہ تھنگتھا بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندرمودی سے اپیل کی کہ ملک کی بچیوں کو آگے بڑھنے کے لیے بچیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
جسوین کے دادا کھجور سنگھ کہتے ہیں کہ ’’ترال میں بچوں کے اندر ٹیلینٹ کی کمی نہیں ہے تاہم ان کو مناسب پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہوتا ہے جس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ چھترگام کے سرپنچ تارا سنگھ نے بتایا کہ ’’بچی نے پورے گاؤں کانام روشن کر دیا ہے۔‘‘ وہیں اس ننھی کھلاڑی کو مبارکباد دینے پہنچے جی پی سی پلوامہ کی ٹیم نے بتایا کہ ’’جسوین نے پورے سکھ سنگھت کا نام روشن کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ چھوٹی عمر میں بڑے خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے جسوین کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: Young Martial Arts Player زمرودہ بانو نے مارشل آرٹ میں نام کمایا
ترال کی اس ننھی کھلاڑی نے جو اڑان پانچویں جماعت میں بھری ہے وہ کئی لوگوں کے لیے جوانی میں بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’’ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔‘‘