انتظامیہ کے مطابق جموں و کشمیر میں 6465 افراد قرنطینہ میں رکھے گئے ہیں جن میں 3200 افراد حکومت کی جانب قائم کئے گئے مراکز میں طبی نگہداشت میں رکھے گئے ہیں۔
جنوبی ضلع پلوامہ میں انتظامیہ نے ایک نجی اسکول ’سولیس انٹرنیشنل اسکول‘ میں قریبا 40 افراد کو قرنطینہ میں رکھا ہے۔
تاہم ان افراد کا کہنا ہے کہ ضلع انتظامیہ انہیں سہولیات فراہم کرنے میں نا کام ہو چکی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ انتظامیہ انہیں وقت پر کھانا میسر نہیں رکھتی اور نہ ہی ڈاکٹر صاحبان وقت پر انکا معائینہ کرنے کیلئے آتے ہیں۔
قرنطینہ سنٹر میں رکھے گئے افراد نے دعویٰ کیا کہ انکے ساتھ ’’جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘‘ جبکہ اس سنٹر میں صرف ایک بیت الخلاء ہے جس کی وجہ سے انکو رفع حاجت میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں جبکہ نہانے کیلئے غسل خانہ بھی موجود نہیں ہے۔
انکا مزید کہنا ہے کہ ایک کمرے میں چھ افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جس سے شخص ایک دوسرے سے اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ ’’یہ قرنطینہ مراکز نہیں بلکہ گندگی کے مراکز ہیں۔‘‘
قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کی شکایات کو صحیح قرار دیتے ہوئے اسکول کے مالک میر وسیم حنیف کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو کووڈ 19 سے درپیش بحران کے مدنظر رضاکارانہ طور اپنے اسکول کو قرنطینہ مرکز کے لیے پیش کیا تاہم انکے مطابق ’’یہ بات سچ ہے کہ اسکول میں کوئی غسل خانہ نہیں جبکہ 20 یورینل موجود ہیں۔ ہم نے ان خامیوں کے متعلق ضلع انتظامیہ کو باخبر کیا ہے لیکن متعلقہ حکام نے اس جانب سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔‘‘
ضلع پلوامہ میں کووڈ 19 کے نوڈل افسر ڈاکٹر ارشد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتظامیہ قرنطینہ مراکز کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) کے ضابطوں کے مطابق چلا رہی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ ضابطوں کی عمل آوری کرتے ہوئے انتظامیہ نے ایک کمرے میں چھ افراد کو ایک میٹر کے فاصلے پر قرنطینہ میں رکھا ہے جو (عالمی ادارہ صحت) ڈبلیو ایچ او ضابطے کے عین مطابق ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن مراکز میں سہولیات کا فقدان ہے وہاں سہولیات دستیاب کی جا رہی ہیں۔
انکا مزید کہنا ہے کہ قرنطینہ مراکز پر طبی عملہ کو نگہداشت کیلئے ہر روز بھیجا جا رہا ہے اور قرنطینہ مراکز میں رکھے گئے افراد کی شکایات بھی درج کی جارہی ہیں جنکا فوراً ازالہ بھی کیا جا رہا ہے۔
قابل غور ہے کہ ضلع پلوامہ میں 1000 افراد کیلئے 21 قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے ہیں۔