ترال: جموں و کشمیر کے ترال میں ممتاز شاعرہ رجنی بہار نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شاعری اپنے جزبات اور احساسات کا ایک انمول سنگم ہے، جو کسی بھی انسان کے ذہنی دریچوں کو کھول کر اسے ایک نئی شناخت دیتے ہیں۔ ترال میں ایک مشاعرے میں پہنچی شاعرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعری انہیں وراثت میں ملی ہے کیونکہ ان کے والد گوپی کرشن بہار متعدد زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور بچپن سے ہی گھر میں ادبی ماحول نے مجھے شاعر بنا دیا ہے۔
رجنی کے مطابق شاعری کا شوق انہیں بچپن سے ہی تھا اور وہ اکثر کچھ اشعار لکھ کر بعد میں اسے پھاڑ دیتی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا نام رجنی بھٹ تھا تاہم ایک استانی کے کہنے پر میں نے رجنی بہار رکھا چونکہ بہار میرے والد کا تخلص بھی تھا۔ اس لیے بچپن سے ہی میرے نام کے ساتھ بہار جڑ گیا جو میرا زاتی اور قلمی نام بنا۔
رجنی نے کہا کہ اس نے جب میٹرک کا امتحان پاس کیا تو کشمیر میں نامساعد حالات پیدا ہوئے جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے جموں ہجرت کی اور تب سے لیکر آج تک وہ جموں میں ہی رہ رہی ہیں۔ ان کی شادی کپواڈ کے رہائشی ایک کشمیری پنڈت کے ساتھ ہوئی ہے۔ رجنی کے مطابق ہجرت کے باوجود وہ اپنے بچوں کو کشمیری زبان سکھانے میں کامیاب تو ہوئی ہے تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیری زبان کا مناسب ماحول نہ ملنے سے وہ اچھی طرح کشمیری بول نہیں پاتے حالانکہ میں کشمیری زبان میں ہی لکھ رہی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: Poet Pakiza Ayyub کشمیری شاعرہ کا پاکیزہ ایوب سے حنا تک کا سفر
رجنی کے مطابق سرکاری سطح پر کشمیری زبان کو اٹھائے جانے والے اقدامات اطمینان بخش نہیں ہیں اور اس ضمن میں مزید اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین موجودہ دور میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اس لیے ان کو شاعری کے صنف میں بھی طبع آزمائی کرنی چاہیے تب ہی جاکر زبان کی خدمت بہتر طریقے سے ممکن ہو پائے گی۔