اس دوران جنوبی کشمیر کے ترال سے وابستہ ایک 82 سالہ شخص غلام قادر تیلی نے مغز بانی کا پیشہ اپنا کر جہاں اپنے لیے روزگار کا ایک مستقل وسیلہ ڈھونڈ لیا ہے وہیں ان افراد کے لیے موصوف ایک مثال بن گیے ہیں جو حالات کا بہانہ بنا کر اپنی زمہ داری سے منہ موڑ رہے ہیں
غلام قادر تیلی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں بتایا کہ وہ پچھلے پچپن برسوں سے اس شہد کی صنعت سے وابستہ ہیں اور اسی پر اپنا روزگار چلاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شہد کی صنعت کو اس وقت کئ طرح کی مشکلات درپیش ہیں اور جن ادویات کی ضرورت انھیں وقتاً فوقتاً پڑ رہی ہے انتظامیہ انہیں وہ فراہم کرنے میں لیت ولعل کا مظاہرہ کر رہا ہے
غلام قادر کہتے ہیں انہوں نے پیلے دس ہایوز لیے تھے تاہم ترقی کرتے کرتے آج ان کے پاس ڈیڑھ سو سے زائد ہایوز ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اگر سرکار اس مغزبانی صنعت کی طرف توجہ دیتی تو اس سے ہماری آنے والی نسلوں کو بہت فائدہ پہنچتا تاہم موجودہ وقت میں سرکار اس ضمن میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے
شہد کی اہمیت اور افادیت پر بات کرتے ہوئے غلام قادر نے بتایا کہ شھد ننانوے بیماروں کا علاج ہے اور ہمیں اس صنعت کو بڑھاوا دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔