جموں و کشمیر کے پلوامہ کی رہنے والی سکینہ تقریبا حکومتی امداد کی منتظر ہیں۔ سکینہ فی الحال عارضی ٹین کے جھونپڑیوں میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کچھ ایسی حالت پلوامہ کے ہی محمد مقبول شیخ کی ہے، ان سے حکومت کی جانب سے آواس یوجنا کے تحت مکانات کی تعمیر کے لیے رقم کی فراہم کے لیے وعدے تو کیے گئے ہیں، لیکن تاحال وفا نہیں ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدے کی بدولت ان لوگوں نے مکان کی بنیاد تو ڈال دی ہے، لیکن وہ بنیاد تاحال حقیقت میں نہیں بدل سکی ہے اور یہ لوگ فی الحال امید و بیم کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سکینہ کہتی ہیں: 'مکان کی بنیاد ڈالے سات برس گذر چکے ہیں، لیکن ہمیں کوئی رقم فراہم نہیں کی گئی، ہمارے پاس نہ تو مکان ہے اور نہ ہی بیت الخلا کا کوئی انتظام۔ حکومتی اہلکار آتے ہیں اور تصویر کھینچ کر چلے جاتے ہیں، لیکن ہمیں کسی طرح کی رعایت یا فائدہ اب تک نہیں مل پایا۔'
محمد مقبول شیخ کا کہنا: 'میں کئی برسوں سے انتظار کر رہا ہوں، لیکن وہ صرف آج کل کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ میں اپنی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے ہمراہ اس عارضی جھونپڑی میں رہنے پر مجبور ہوں۔ مکان کی بنیاد ڈالے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں، اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی تعمیر کب ہوگی۔'
مرکزی حکومت کی جانب سے خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے افراد کو آواس یوجنا کے تحت مکانات کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کی جاتی ہے۔ ضلع پلوامہ میں ایسے تقریبا چھ ہزار کنبے ہیں، جن سے حکومت کی جانب سے مکانات کی تعمیر کے لیے رقم کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پلوامہ ان مستحقین کو حکومتی امداد فراہم کی جائے گی یا وعدہ صرف وعدہ ہی رہے گا۔