وادی کشمیر میں مختلف اقسام کے میوہ جات کاشت کیے جاتے ہیں جو مختلف اوقات پر تیار ہوتے ہیں۔ آج کل ناشپاتی کی ایک قسم تیار ہے جس کو کاشتکار اتارنے میں لگے ہیں۔ ناشپاتیوں کی کئی اقسام ہیں، تاہم آج کل ببہ گوش نام سے جانا جانے والا ناشپاتی تیار ہے۔ اس قسم کی ناشپاتی کی عمر کم ہی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ناشپاتی کو آٹھ دنوں کے اندر اندر منڈیوں میں پہنچا کر فروخت کر دیا ہوتا ہے ورنہ یہ میوہ خراب ہو جاتا ہے، جس سے کاروباریوں اور کاشتکاروں کو اس سے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ برس دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد اس فصل سے جڑے کاروباریوں اور کاشتکاروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا، تاہم رواں سال کورونا وائرس کی وجہ سے انہیں پھر سے نقصان اٹھانے کا خدشہ لاحق ہے۔ گزشتہ برس دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کاروباریوں کو کوئی معقول ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں تھا، تاہم اس سال بھی انہیں ٹرانسپورٹ کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے میوےجات کے خراب ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میوے کی کاشت کرنے والے لاک ڈاؤن سے متاثر
اس حوالے سے کاشتکاروں اور کاروباریوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بھی ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا، تاہم اس سال بھی ایسا کوئی معقول انتظام نظر نہیں آ رہا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ میوہ باہر کی منڈیوں میں وقت پر نہیں پہنچ پاتا ہے۔ اس کو بیچنے میں وقت لگتا ہے جس کی وجہ سے یہ خراب ہوتا ہے اور ہمیں نقصان سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ ایک تو ان کے میوہ جات کو باہر کی منڈیوں تک لے جانے کے لیے معقول ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے اور منڈیوں تک اس کو جلد از جلد پہنچایا جانا چاہیے تاکہ ان کو نقصان سے دو چار نہ ہونا پڑے۔
اس حوالے سے ایک کاشتکار نے بات کرتے ہوئے کہا گزشتہ برس بھی ہمیں بہت نقصان ہوا، تاہم اس سال زیادہ دھوپ ہونے سے اور بارش نہ ہونے سے پہلے ہی ہمارا میوہ خراب ہونے لگا ہے، اگر یہ وقت پر منڈیوں تک نہیں پہنچا تو ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔