ETV Bharat / state

Chinar abode Gaang in South Kashmir چنار درختوں کے لیے مشہور گانگ علاقہ عدم توجہی کا شکار

صدیوں سے کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو سموئے ہوئے چنار کے درختوں کی تعداد نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ سرکاری سطح پر بھی خاطر خواہ انتظامات نہ کیے جانے کے باعث عوامی حلقوں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ Chinar Hub Gaang in South Kashmir’s tral

chinar
chinar
author img

By

Published : Nov 21, 2022, 4:26 PM IST

پلوامہ: وادی کشمیر کو قدرت نے بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے یہاں کے برف پوش پہاڑ، آبشار، چشمے اور چنار کے درخت نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کا محور بنے ہوئے ہیں بلکہ شعراء، ادیبوں اور قلمکاروں نے بھی ان کا تذکرہ اپنے فن پاروں میں کیا ہے۔ صدیوں سے کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو سموئے ہوئے چنار کے درختوں کی تعداد نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ سرکاری سطح پر بھی چنار کی شجرکاری مہم کو پروان نہ چڑھا کر عوامی حلقوں میں ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ Famous for Chinar Trees Gang area neglected

چنار درختوں کے لیے مشہور گانگ علاقہ عدم توجہی کا شکار

جنوبی کشمیر کے ترال علاقے کے ’گانک‘ نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں سو سے بھی زائد چنار کے درخت اس علاقے کو الگ شناخت فراہم کرتے ہیں۔ چار سو برس سے بھی زیادہ قدیم ان چنار کے درختوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں تاہم لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت اس تاریخی ورثہ کی شان رفتہ کی بحالی کے حوالہ سے سنجیدہ نہیں۔

قریب ایک سو پچیس کنبوں پر مشتمل گانگ نامی علاقے کے باشندوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’سرکاری سطح پر اعلانات کے باوجود گانگ علاقے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اب امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ یہاں موجود چنار باغ اپنی شان رفتہ کھو رہا ہے۔‘‘ مقامی باشندوں کے مطابق کئی برس قبل یہاں کے چنار باغ کو فلوریکلچر محکمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا تاہم زمینی سطح پر کوئی خاص تبدیلی ہنوز نظر نہیں آ رہی ہے۔ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ ’’الیکشن کے موقع پر یہاں سیاستدان تو آتے ہیں لیکن پھر اگلے انتخابات تک روپوش ہو جاتے ہیں۔‘‘

ترال کے معروف معالج اور آئینہ ترال نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر نثار احمد ترالی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’وادی کشمیر میں چنار کو مغل حکمرانوں نے ’شاہی درخت‘ کا رتبہ دیا تھا تاہم اب یہاں چناروں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’گانگ علاقے میں چناروں کی تعداد ایک سو دس کے قریب ہے جبکہ سرینگر کے معروف نسیم باغ میں صرف ایک سو چنار موجود ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ اس گاوں میں انتظامیہ کی عدم توجہی سے اب کئی چنار سوکھ چکے ہیں اور اگر صورتحال یہی رہی تو چنار کے یہ درخت قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گے۔‘‘

مزید پڑھیں: اننت ناگ: شیر باغ میں بوسیدہ چنار کے درخت لوگوں کے لئے وبال جان

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملہ کی نسبت سے فلوریکلچر محکمہ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اس بارے میں اعلیٰ حکام کو رپورٹ بھی بھیج دی گئی ہے۔ رینہ کے مطابق ’’جلد ہی اس ضمن میں ایک خوشخبری سننے کو ملے گی۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: ہندواڑہ کا شیرِ کشمیر چِنار پارک خستہ حالی کا شکار

ضرورت اس امر کی ہے کہ چنار درختوں کے اس تاریخی ورثہ کی حفاظت اور شان رفتہ کی بحالی کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائیں جائیں۔

پلوامہ: وادی کشمیر کو قدرت نے بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے یہاں کے برف پوش پہاڑ، آبشار، چشمے اور چنار کے درخت نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کا محور بنے ہوئے ہیں بلکہ شعراء، ادیبوں اور قلمکاروں نے بھی ان کا تذکرہ اپنے فن پاروں میں کیا ہے۔ صدیوں سے کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو سموئے ہوئے چنار کے درختوں کی تعداد نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ سرکاری سطح پر بھی چنار کی شجرکاری مہم کو پروان نہ چڑھا کر عوامی حلقوں میں ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ Famous for Chinar Trees Gang area neglected

چنار درختوں کے لیے مشہور گانگ علاقہ عدم توجہی کا شکار

جنوبی کشمیر کے ترال علاقے کے ’گانک‘ نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں سو سے بھی زائد چنار کے درخت اس علاقے کو الگ شناخت فراہم کرتے ہیں۔ چار سو برس سے بھی زیادہ قدیم ان چنار کے درختوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں تاہم لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت اس تاریخی ورثہ کی شان رفتہ کی بحالی کے حوالہ سے سنجیدہ نہیں۔

قریب ایک سو پچیس کنبوں پر مشتمل گانگ نامی علاقے کے باشندوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’سرکاری سطح پر اعلانات کے باوجود گانگ علاقے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اب امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ یہاں موجود چنار باغ اپنی شان رفتہ کھو رہا ہے۔‘‘ مقامی باشندوں کے مطابق کئی برس قبل یہاں کے چنار باغ کو فلوریکلچر محکمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا تاہم زمینی سطح پر کوئی خاص تبدیلی ہنوز نظر نہیں آ رہی ہے۔ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ ’’الیکشن کے موقع پر یہاں سیاستدان تو آتے ہیں لیکن پھر اگلے انتخابات تک روپوش ہو جاتے ہیں۔‘‘

ترال کے معروف معالج اور آئینہ ترال نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر نثار احمد ترالی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’وادی کشمیر میں چنار کو مغل حکمرانوں نے ’شاہی درخت‘ کا رتبہ دیا تھا تاہم اب یہاں چناروں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’گانگ علاقے میں چناروں کی تعداد ایک سو دس کے قریب ہے جبکہ سرینگر کے معروف نسیم باغ میں صرف ایک سو چنار موجود ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ اس گاوں میں انتظامیہ کی عدم توجہی سے اب کئی چنار سوکھ چکے ہیں اور اگر صورتحال یہی رہی تو چنار کے یہ درخت قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گے۔‘‘

مزید پڑھیں: اننت ناگ: شیر باغ میں بوسیدہ چنار کے درخت لوگوں کے لئے وبال جان

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملہ کی نسبت سے فلوریکلچر محکمہ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اس بارے میں اعلیٰ حکام کو رپورٹ بھی بھیج دی گئی ہے۔ رینہ کے مطابق ’’جلد ہی اس ضمن میں ایک خوشخبری سننے کو ملے گی۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: ہندواڑہ کا شیرِ کشمیر چِنار پارک خستہ حالی کا شکار

ضرورت اس امر کی ہے کہ چنار درختوں کے اس تاریخی ورثہ کی حفاظت اور شان رفتہ کی بحالی کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائیں جائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.