پوری وادی میں آئے روز پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ وہیں، وادی میں مختلف اقسام کے منشیات پولیس ضبط کر رہی ہے۔ اگرچہ وادی میں منشیات باہر سے بھی آتے ہیں تاہم یہاں کے لوگ منشیات اگانے اور اس کا کاروبار کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب نوجوانوں کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی اس نشے کی لت میں مبتلا ہونے لگی ہیں۔
پولیس کے علاوہ اب محکمہ تعلیم اور دوسرے محکمے بھی اس لت سے نوجوانوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو منشیات جیسی لت سے دور رکھیں۔
اس حوالے سے ایک طالب علم نے کہا کہ نشے کی وجہ سے ہمارے جسم کے اعضا بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے پروگرام منعقد ہونے چاہیے تاکہ عام لوگوں کو نشے کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں جانکاری فراہم کی جائے۔
اس حوالے سے ایک طالبہ نے کہا ایسے پروگرام منعقد ہونے چاہیے تاکہ لوگوں کو منشیات کے حوالے سے جانکاری کے ساتھ ساتھ نقصانات کے حوالے سے جانکاری فراہم ہو۔
یہ بھی پڑھیں: ترال: گورنمنٹ اسکول کے عملہ کی منفرد مثال
اس سلسلے میں وومن ویلفیئر آفیسر سوشل ویلفیئر منیشا نے کہا کہ منشیات سے 272 اظلاع متاثر ہیں جن میں ضلع پلوامہ بھی ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے پروگرامز کو سکول تک ہی محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس پروگرام کو وسعت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پوری وادی 12 سے 15 سالہ نوجوانوں کی 90 فیصد آبادی منشیات کی عادی ہو چکی ہے۔
اس حوالے سے طارق عبداللہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر پلوامہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگراموں کا اسکولوں میں کرنے کا مقصد ایک ہی ہے کہ یہاں سے ہر ایک گھر میں ایک پیغام جائے گا کہ منشیات کی لت سے کس طرح کے نقصان ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نو عمر بچے منشیات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اسی لئے ایسے پروگرام اسکول میں کیے جاتے ہیں تاکہ ان بچوں کو جانکاری دی جائے۔