تفصیلات کے مطابق ڈوگری پورہ گاوں چھ سو کنبوں پر مشتمل ہے لیکن اس گاوں کے رہنے والے لوگ اس جدید دور میں بھی آبی ٹرانسپورٹ پر ہی منحصر ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق وہ دریائے جہلم کے کنارے پر آباد ہیں لیکن ایک پل کی عدم دستیابی سے سارے جہاں سے منقطع ہو کر رہ گئے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق سال دو ہزار چھ میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے پل کا افتتاح تو کیا جسکے بعد عوام نے راحت کی سانس لی اور لوگوں نے مٹھائیاں بھی تقسیمِ کی لیکن عوام کی یہ خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی کیونکہ پل کے افتتاح ہونے کے بعد صرف دو ستون تعمیر کیے گئے اور بعد میں کام کچھ اسطرح رکا کہ اب تک شروع نہیں کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ کام JkPCc نامی تعمیراتی کمپنی کو سونپا گیا تھا لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر کام شروع نہیں کیا گیا ہے
مقامی لوگوں کے مطابق انہوں نے چھوٹے سے بڑے حاکم کے پاس فریاد تو کی لیکن 'نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے' کے مصداق ہر بار انکی صدا صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور نتیجا یہ کہ چودہ سال کے بعد بھی آبادی کو دریا پار کر کے اپنی زندگی کی شمع کو رواں دواں رکھنا پڑ رہا ہے
مقامی شہری عبدالجبار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ مرحوم مفتی محمد سعید نے 2006 میں کیا لیکن اب تک یہ پل تشنہ تکمیل ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی شاہراہ سے محض ڈیڑھ کلو میٹر دور ہے لیکن مقامی دریا پر پل نہ ہونے سے انکو لمبی مسافت طے کرنا پڑ رہا ہے عبدل جبار کے مطابق دریا میں پانی کی سطح بڑھ جانے سے وہ کشتی پر بھی سفر نہیں کر سکتے ہیں اور اسطرح ساری آبادی محصور ہو کر رہ جاتی ہے
یہ بھی پڑھیں: پلوامہ خود کش حملہ کی پہلی سماعت، پاکستان کا اعتراض
ایک اور شہری نے بتایا کہ وہ پل کی عدم دستیابی سے مشکلات میں مبتلا ہو گیے ہیں کیونکہ انکے گاوں کے پچاس سے زاید بزرگ بھی اس پل کے خواب کو لیکر چل بسے لیکن ا ب بھی پل مکمل نہیں ہوا ہے
اظہرالدین نامی ایک مقامی نوجوان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس پل کی تعمیر کے لیے لایا گیا لوہا اور دیگر مشینری بھی زنگ آلود ہو چکی ہیں لیکن انتظامیہ اس بارے میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے
ڈوگری پورہ اونتی پورہ کے مقامی لوگوں نے ایل جی انتظامیہ سے اس بارے میں فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔