تئیس جنوری کی تاریخ ایک اہم تاریخ ہے کیونکہ آج ہی کہ دن سبھاش چندر بوس پیدا ہوئے، نیتا جی سب سے مشہور مجاہد آزادی رہے ہیں۔
آج ان کی 123ویں یوم پیدائش پر پوری دنیا ان کی ملک سے محبت، قومی یکجہتی کو لے کر انہیں یاد کر رہی ہے۔
سبھاش چندر بوس کو نیتاجی کا خطاب اس وقت ملا جب انہوں نے انڈین نشنل آرمی کو تشکیل دیا اور انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی شروع کی۔
ابتدائی زندگی
نیتا جی سبھاش چندر بوس ریاست اڑیسہ کے شہر کٹک میں 23 جنوری سنہ 1897 میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام پربھاوتی دت بوس تھا، وہ پیشے سے وکیل تھے، نیتا جی اپنے 14 بھائی بہنوں میں 9 ویں نمبر پر تھے۔
بوس سب سے پہلی برطانوی فوج کی نظر میں تب آئے جب انہوں نے پروفیسر ای ایف آٹن کی پریزیڈنسی کالج میں ان کے بھارت مخالف بیان کی مذمت کی۔
جس کے بعد انہیں کالج سے نکال دیا گیا اور انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے اسکاٹش چرچ کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے سنہ 1918 میں فلاسفی میں بیچلرز مکمل کی۔
اس کے بعد وہ بھارت کو الوداع کہہ کر برطانیہ چلے گئے، اور انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ وہ واپس آکر انڈین سیول سروسز امتحانات میں حصہ لیں گے۔
کانگریس کے ساتھ اعتماد
برطانیہ سے واپس ہندوستان آنے کے بعد بوس نے تحریک آزادی میں قدم رکھا اور کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے 'سوراج' کے نام سے ایک اخبار بھی نکالا، اور کانگریس پارٹی کی جانب سے بنگال کے کانگریس کمیٹی کے صوبائی صدر کا عہدہ سنبھالا ۔
چونکہ اس دوران نیتاجی کانگریس میں کافی مشہور ہو گئے، لیکن ان کے نظریات کانگریس کے اعلی رہنما مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو سے کافی مختلف تھے۔
سنہ 1938 میں نیتا جی کو کانگریس کا صدر مقرر کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے وسیع پیمانے پر صنعت کاری کی ایک پالیسی بنائی جو گاندھی کی معاشی سوچ کے مطابق نہیں تھی۔ یہ فرق بوس کے 'جارحانہ' موقف کے برخلاف گاندھی کی 'اعتدال پسند' فطرت کی وجہ سے بتایا گیا تھا۔ انہیں سنہ 1939 میں کانگریس کی قیادت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے پارٹی سے استعفی دینے کا فیصلہ کیا۔
انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل
بیرونی حمایت حاصل کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے دوران ، بوس نے جرمنی اور جاپان کا سفر کیا۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے انہوں نے باہر سے فوجیوں کو راغب کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک عوامی تحریک شروع کرنے کے مقصد کے ساتھ بوس نے بھارتیوں کو دل سے شرکت کے لئے دعوت دی۔ انہوں نے ایک نعرہ بھی دیا کہ 'تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا'۔
نظر بندی سے فراری
اپنے ہی گھر میں سنہ 1941 میں نظربند ہونے کے دوران اچانک بوس غائب ہوگئے۔ اس دوران انہوں نے پیدل، کار اور ٹرین کے ذریعے سفر کیا اور ماسکو سے ہوتے ہوئے کابل چلے گئے، اور بالآخر جرمنی پہنچ گئے۔
جرمن ریڈیو سے ان کی نشریات نے بھارت مین موجود انگریزی حکومت میں خوف کی لہر برپا کر دی اور ہندوستانی عوام کو خوشی بخشی۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے قائد اپنے مادر وطن کو آزاد کروانے کے لئے ایک ماسٹر پلان پر کام کر رہے ہیں۔
بوس نے برلن میں فری انڈیا سنٹر کی بنیاد رکھی۔ جس کے بعد اس میں 4500 فوجیوں کو شامل کیا، بوس نے اسکے بعد فروری سنہ 1943 میں جاپان کا رخ کیا ، جہاں انہوں نے سنگاپور اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی علاقوں سے 40000 سے زیادہ فوجیوں کی بھرتی کی ۔ انہوں نے اپنی فوج کو انڈین نیشنل آرمی کا نام دیا تھا۔
وہیں اس دوران انہوں نے 21 اکتوبر 1943 کو "آزاد ہند حکومت" کے نام سے ایک حکومت کا اعلان کیا۔
اس کے بعد آئی این اے نے انڈومان اور نیکوبار جزیروں کو انگریزوں سے آزاد کیا اور ان کا نام بدل کر سوراج اور شہید جزیرے رکھ دیا۔ سرکار نے وہاں کام کرنا شروع کیا۔
بوس کی فوج نے برما کی سرحد عبور کرتے ہوئے سرزمین بھارت پر قدم رکھا، جہاں انہوں نے 1944 میں انفال اور کوہیما کے آس پاس برطانوی افواج کے ساتھ جنگ لڑی۔ تاہم ، دوسری جنگ عظیم کے واقعات نے جاپانی اور جرمن افواج کے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے نیتا جی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
نیتاجی کی وفات
آئی این اے کے فوجیوں نے جب انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، تو نیتا جی کچھ فوجیوں کے ساتھ ملایہ یا تھائی لینڈ کی طرف پیچھے ہٹ گئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ بوس 18 اگست 1945 کو تائیوان میں جاپانی طیارے کے گرنے کے بعد تھرڈ ڈگری تک جلنے کی وجہ سے دم توڑ گئے۔