گزشتہ دو ماہ سے مالیگاؤں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا لیکن گزشتہ تین روز سے سینکڑوں کی تعداد میں مریض صحتیاب ہوئے اور اب شہر میں کورونا متاثرین کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔
دو روز قبل ریاستی وزیر صحت راجیش ٹوپے نے مالیگاؤں بچاؤ منچ کے ذمہ داران، رکن اسمبلی مفتی محمد اسماعیل قاسمی، حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں، ڈاکٹرز اور صحافیوں کے ساتھ میٹنگ منعقد کی تھی۔
اس میٹنگ میں ایک شخص نے راجیش ٹوپے سے دو ٹوک بات شروع کی ہی تھی کہ اسے درمیان میں ہی روک دیا گیا اور اس بات کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اس معاملہ کی جانچ شروع کی اور مذکورہ شخص سے ملاقات کی جس میں مختلف حقیقت سامنے آئی۔
اس شخص کا نام ڈاکٹر اخلاق عثمانی ہے، انہوں نے پورے معاملہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ان کے بھائی سابق کارپوریٹر تنویر عثمانی کا انتقال بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہوا، انہیں شہر کی کسی بھی ہسپتال نے ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن انتقال کے چار روز بعد ان کی کورونا رپورٹ منفی آئی۔
ڈاکٹر اخلاق احمد عثمانی نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کو شہر کے کسی بھی ہسپتال نے فوری طور پر طبی مدد نہیں دی اور بحالت مجبوری انہیں کورونا متاثرین کے لیے مختص جیون ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن وہاں ونٹیلیٹر لگانے کیلئے کوئی اسٹاف نہیں تھا جبکہ ضروری دوائیں بھی ہسپتال میں دستیاب نہیں تھیں جس کی وجہ سے سابق کارپوریٹر تنویر عثمانی کی موت ہوگئی۔
ڈاکٹر اخلاق احمد عثمانی نے کہا کہ یہ معاملہ صرف ہمارے ساےھ ہی نہیں ہوا بلکہ شہر میں تقریباً بارہ سو سے زائد اموات بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی ہے جس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں اس بات پر سیاست کی جارہی ہے کہ قرنطینہ سینٹر کہاں اور کتنے بیڈ کا بنانا ہے۔ میڈیکل فنڈ کا استمعال غیر ضروری امور کے لیے کیسے کرنا ہے؟
ڈاکٹر اخلاق احمد عثمانی نے کہا کہ 'جب ریاستی وزیر صحت راجیش ٹوپے کو انہوں نے حقیقت سے روشناس کرانے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا، انھوں نے شہر کے ناکام طبی محکمہ، میڈیکل اسٹاف کی کمی، ونٹیلیٹر اور دیگر ایمرجنسی طبی امداد پر شکایت کی تو انہیں روکا گیا۔