ممبئی کا بھنڈی بازار یوں تو مسلم اکثریتی بستی اور مغلائی کھانوں کی ہوٹل کے سبب سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے، لیکن ایک بات جسے عام عوام نا واقف ہیں وہ یہ کہ بھنڈی بازار اردو ادب و کلاسیکل میوزک کا گہوارہ رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے منسلک افراد کا مسکن بھی یہی بھنڈی بازار رہا ہے۔ تاہم عوام میں ناوقفیت کے پیش نظر اب اردو مرکز کے کارکنان بڑی شدت سے ان علاقے کی گلیوں اور شاہراہوں کے نام اسی کے مناسبت سے رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔'
بھنڈی بازار کلاسیکل میوزک کا گہوارہ رہا ہے، یہ بات اردو طبقہ نے محسوس کی۔ اردو مرکز کے ذمہ دار زبیر اعظمی کہتے ہیں سنہ 1890 کے اوائل میں مرادآباد سے استاذ چھجو خان اور نظیر خان کی اسی بھنڈی بازار میں آمد ہوئی جنہوں نے اس علاقے میں امن کلاسیکل میوزیک کی داغ بیل ڈالی۔ یہیں سے کلاسیکل میوزیک کا ایک باب کے آغاز ہوا۔ بھنڈی بازار کے اس ماحول میں کلاسیکل میوزک پروان چڑھی لیکن آج اسے بھلا دیا گیا۔
- مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود ہوٹل والوں کی حالت خستہ
- 'ہماری مشکلات کو حل کرنے والا کوئی نہیں'
- ممبئی: بھنڈی بازار کے عوام نقل مکانی پر مجبور
زبیر اعظمی کہتے ہیں کہ اس بھنڈی بازار ناگ دیوی اسٹریٹ کو دور حاضر میں کم سے کم اس نام سے منسوب کیا جائے تاکہ موجودہ نسل کو اس بات کی جانکاری ہو۔ یہ ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ قدیم روایتوں کو جدید ادوار سے ہم آہنگ کرنا، تہذیب تمدن، علمی ثقافتی سرگرمیوں سے موجودہ نسل کو آگاہ کرنا، ان میں ان علاقوں کے بارے میں جاننے کی جستجو پیدا کرنا جو علاقے جو گلیاں جو محلے جنگ آزادی۔ کلاسیکل میوزک اردو ادب۔ ترقی پسندی تحریک کے گواہ بنے۔ اس لیے ان علاقوں کو ان گلیوں شاہراہوں کو اس نام سے منسوب کرنا بہتر قدم ہوگا۔