ETV Bharat / state

Firing in Bilal Masjid Mumbai ممبئی فسادات کے مظلومین انصاف سے اب تک محروم

ممبئی فسادات کے سلسلہ میں 30 سال بعد بھی مظلومین انصاف سے محروم ہیں، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سرکاری سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جب کہ بلال مسجد فائرنگ میں زخمی فاروق ماپکر، قصوروار پولیس افسر پر کارروائی نہ ہونے پر غمگین ہیں۔ Victims of Mumbai Riots are Still Deprived of Justice

Victims of Mumbai Riots are Still Deprived of Justice
Victims of Mumbai Riots are Still Deprived of Justice
author img

By

Published : Dec 5, 2022, 11:40 AM IST

ممبئی: ممبئی میں 6 دسمبر کو اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں دو دور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا مقدمہ ایک عرصہ سے سپریم کورٹ میں التواء کا شکار رہا، لیکن وکیل شکیل احمد شیخ کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو حکم دیا ہے کہ جو مظلومین اور متاثرین مالی امداد سے محروم رہ گئے اور جو فساد میں لاپتہ ہیں، ان کی تلاش کے ساتھ ہی پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے، اطلاع کے مطابق ریاستی حکومت نے فی الحال اس ضمن میں کوئی اہم اقدام نہیں کیا ہے اور نہ اسے گمشدہ افراد کی تلاش میں کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔ The Victims of the Mumbai Riots are yet to get Justice

یہ بھی پڑھیں:

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی سرکاری سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی سرگرمی مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے نظر آرہی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ان متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے لیے ترس گئے ہیں جن میں ایک بے قصور اور پولیس کی گولی کا شکار بنے رفیق ماپمر ہیں۔ ان کے پاؤں میں گولی لگی تھی۔ رفیق ماپکر جو کہ وڈالا کی ہلال یا ہری مسجد میں نمازیوں پر ہونے والی اندھادھند پولس فائرنگ میں زخمی ہوگئے تھے۔ اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ لیکن انہیں انصاف نہیں ملا ہے، انہوں نے رفیع احمد قدوائی مارگ پولیس اسٹیشن سے وابستہ انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016 میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔ حالانکہ کاپسے کا نام جانبداری اور ناانصافی کرنے بلکہ لوٹ مار میں شامل پولیس اہلکاروں کی فہرست میں شامل ہے جسے جسٹس بی این سری کرشنا نے اپنے رپورٹ میں جاری کی ہے۔ مگر کاپسے کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے ترقی دے دی گئی ہے۔
عروس البلاد ممبئی میں اجودھیا میں 6 دسمبر کو بابری مسجد کی مسماری کے بعد اور پھر جنوری 1993 میں دوسرے دور کے خونریز فسادات کو تقریباً 30سال گزر چکے ہیں، جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں قائم کیے گئے تحقیقاتی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو حکومت کے روبرو پیش کیے ہوئے بھی لگ بھگ 24 برس ہوچکے ہیں۔ فاروق ماپکر کوکن۔ مارکنٹائل بینک میں ملازمت کرتے ہیں، نے اس تعلق سے کہا کہ انہیں سرکاری معاوضہ مل گیا ہے، لیکن بے قصوروں کو بلا اشتعال گولی کا نشانہ بنانے والے انسپکٹر کاپسے کو اس کے کیے کی سزا نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی اس غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ذریعے گمشدہ افراد کی تلاش اور معاوضہ کے لیے اقدام کیے جائیں۔
سری کرشنا کمیشن نے دو واقعات کے بارے میں خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ پولیس نے بے قصوروں کو بے دردی سے گولی ماری تھی، ان میں ایک واقعہ جنوبی ممبئی میں محمد علی روڈ پر واقع سلیمان عثمان بیکری اور متصل مدرسے میں پیش آیا، اور بے گناہوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسرا واقعہ جنوب وسطی ممبئی میں سیوڑی علاقہ میں واقع ہلال مسجد میں پیش آیا جب نہتے نمازیوں کو گولی سے بھون دیا گیا اور انہیں شرپسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ کمیشن نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں نے کئی موقعوں پر تعصب کا مظاہرہ کیا جن میں بعد میں ممبئی کے پولیس کمشنر بنائے گئے آرڈی تیاگی سرفہرست تھے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کے ذہن میں ایک عام تاثر ہے کہ مسلمان شرپسند ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف خصوصی برانچ کے ایک اعلیٰ افسر وی این دیشمکھ نے بھی کمیشن کے سامنے کیا ہے۔

ممبئی: ممبئی میں 6 دسمبر کو اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں دو دور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا مقدمہ ایک عرصہ سے سپریم کورٹ میں التواء کا شکار رہا، لیکن وکیل شکیل احمد شیخ کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو حکم دیا ہے کہ جو مظلومین اور متاثرین مالی امداد سے محروم رہ گئے اور جو فساد میں لاپتہ ہیں، ان کی تلاش کے ساتھ ہی پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے، اطلاع کے مطابق ریاستی حکومت نے فی الحال اس ضمن میں کوئی اہم اقدام نہیں کیا ہے اور نہ اسے گمشدہ افراد کی تلاش میں کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔ The Victims of the Mumbai Riots are yet to get Justice

یہ بھی پڑھیں:

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی سرکاری سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی سرگرمی مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے نظر آرہی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ان متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے لیے ترس گئے ہیں جن میں ایک بے قصور اور پولیس کی گولی کا شکار بنے رفیق ماپمر ہیں۔ ان کے پاؤں میں گولی لگی تھی۔ رفیق ماپکر جو کہ وڈالا کی ہلال یا ہری مسجد میں نمازیوں پر ہونے والی اندھادھند پولس فائرنگ میں زخمی ہوگئے تھے۔ اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ لیکن انہیں انصاف نہیں ملا ہے، انہوں نے رفیع احمد قدوائی مارگ پولیس اسٹیشن سے وابستہ انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016 میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔ حالانکہ کاپسے کا نام جانبداری اور ناانصافی کرنے بلکہ لوٹ مار میں شامل پولیس اہلکاروں کی فہرست میں شامل ہے جسے جسٹس بی این سری کرشنا نے اپنے رپورٹ میں جاری کی ہے۔ مگر کاپسے کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے ترقی دے دی گئی ہے۔
عروس البلاد ممبئی میں اجودھیا میں 6 دسمبر کو بابری مسجد کی مسماری کے بعد اور پھر جنوری 1993 میں دوسرے دور کے خونریز فسادات کو تقریباً 30سال گزر چکے ہیں، جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں قائم کیے گئے تحقیقاتی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو حکومت کے روبرو پیش کیے ہوئے بھی لگ بھگ 24 برس ہوچکے ہیں۔ فاروق ماپکر کوکن۔ مارکنٹائل بینک میں ملازمت کرتے ہیں، نے اس تعلق سے کہا کہ انہیں سرکاری معاوضہ مل گیا ہے، لیکن بے قصوروں کو بلا اشتعال گولی کا نشانہ بنانے والے انسپکٹر کاپسے کو اس کے کیے کی سزا نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی اس غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ذریعے گمشدہ افراد کی تلاش اور معاوضہ کے لیے اقدام کیے جائیں۔
سری کرشنا کمیشن نے دو واقعات کے بارے میں خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ پولیس نے بے قصوروں کو بے دردی سے گولی ماری تھی، ان میں ایک واقعہ جنوبی ممبئی میں محمد علی روڈ پر واقع سلیمان عثمان بیکری اور متصل مدرسے میں پیش آیا، اور بے گناہوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسرا واقعہ جنوب وسطی ممبئی میں سیوڑی علاقہ میں واقع ہلال مسجد میں پیش آیا جب نہتے نمازیوں کو گولی سے بھون دیا گیا اور انہیں شرپسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ کمیشن نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں نے کئی موقعوں پر تعصب کا مظاہرہ کیا جن میں بعد میں ممبئی کے پولیس کمشنر بنائے گئے آرڈی تیاگی سرفہرست تھے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کے ذہن میں ایک عام تاثر ہے کہ مسلمان شرپسند ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف خصوصی برانچ کے ایک اعلیٰ افسر وی این دیشمکھ نے بھی کمیشن کے سامنے کیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.