اردو کا مستقبل تابناک ہے اردو کبھی ختم نہیں ہوسکتی Urdu Can Never End، اردو زبان و ادب پر آج جتنا کام ہورہا ہے ماضی میں اتنا نہیں ہوپایا۔ ان خیالات کا اظہار معروف ہندی ادیب اور انجمن فروغ اردو دہلی کے صدر معین اختر نے کیا۔
موصوف اورنگ آباد میں ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن Read and Lead Foundation کے مصنف سے ملیے پروگرام سے خطاب کررہے تھے ، اس موقع پر معروف ادیب نے اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
جب بھی کسی بڑے قلمکار یا ادبی شخصیت کی اورنگ آباد میں آمد ہوتی ہے، مرزا ورلڈ بک ڈپو پر مصنف سے ملیے پروگرام میں ان کی شرکت یقینی ہوتی ہے۔
دہلی سے تعلق رکھنے والے مومن کانفرنس کے سکریٹری اور دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف معین اختر انصاری Moin Akhtar Ansari is the Author of More Than Two Dozen Books کا مصنف سے ملیے پروگرام میں خیر مقدم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:Demand for Teaching Urdu: مدھیہ پردیش مشنری اسکولوں میں اردو پڑھانے کا مطالبہ
اس موقع پر معین اختر انصاری نے اپنے تدریسی اور تحریکی سرگرمیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پانچ دہائیوں پر محیط ان کی عملی سرگر میوں کا جو خاکہ پیش کیا گیا وہ کافی متاثر کن اور قابل تقلید کہا جاسکتاہے۔ معین اختر کا کہنا ہیکہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کو کوئی نہیں روک سکتا۔
دہلیوی او دومچار سو صفحات پر مشتمل مومن کانفرنس کی دستاویزی تاریخ مرتب کرکے معین اختر نے مومن کانفرنس کی سرگرمیوں کو دستاویز کی شکل دینے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس دستاویز میں بنکروں اور دست کاروں کی سرگرمیوں کا انیس سو گیارہ سے لیکر انیس سو اکیانووے تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ہندی غزل پر بھی معین اختر نے اہم تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔ غزل دُشینت کے بعد چار جلدوں پر مشتمل ان کا تحقیقی کارنامہ ہندی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کتابوں کے آن لائن مطالعے کے تعلق سے معین اختر کا کہنا ہیکہ یہ وقتی رجحان ہے اور جلد ہی لوگ اس سے اوب جائیں گے۔
معین اختر انصاری نے اورنگ آباد اور مہاراشٹر میں جاری اردو کی ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ستائش کی اور انھیں اردو کی ترقی و ترویج کے مراکز سے تعبیر کیا۔ معین اختر انصاری کا کہنا ہیکہ شمالی ہند میں بھی اردو زبان و ادب پر کام ہورہا ہے لیکن جنوب نے سبقت مار لی ہے۔