اورنگ آباد: مہاراشٹر میں گنیش اتسو، ہولی، دیوالی، نواراتری ہو یا شیواجینتی اور امبیڈکر جینتی ہر تہوار بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن گنیش اتسو کی بات ہی نرالی ہے۔ اس اتسو کی تیاریاں پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ ابھی گنیش اتسو کو ایک مہینہ باقی ہے لیکن طبلہ سازوں کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہے۔ اورنگ آباد میں طبلہ سازی کے کاروبار کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ اس پیشے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی نسلوں سے ان کے یہاں طبلہ سازی کی جاتی ہے۔ بدلتے تقاضوں کے ساتھ طبلے کی بناوٹ سے لے کر قیمتوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوگیا ہے لیکن اس پیشے کی بدولت کئی خاندانوں کی کفالت ہوجاتی ہے۔
اورنگ آباد میں بننے والے ڈھول، تاشے اور طبلوں کی مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع میں مانگ ہے۔ دور دراز علاقوں سے لوگ ڈھول تاشے اور طبلے خریدنے کے لیے اورنگ آباد کا رخ کرتے ہیں۔ طبلہ سازوں کا کہنا ہے کہ دو دن میں ایک طبلہ بن جاتا ہے لیکن روایتی طبلے کی جگہ اب جدید طبلے نے لے لی ہے۔ کسی زمانے میں کھال اور لکڑی کے ڈرم سے بننے والا طبلہ اب فائبر، پترے سے بنایا جارہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں کم وقت اور لاگت میں زیادہ منافع کا عنصر بھی شامل ہے۔
جدید موسیقی کے الات میں ڈی جے نے روایتی موسیقی کے آلات کو معدوم کر دیا ہے لیکن طبلے کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اس لیے طبلے کی مانگ آج بھی برقرار ہے۔ صدیوں پرانے اس فن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ دیگر پیشوں کی طرح طبلہ سازی کا پیشہ بھی معدوم ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: وجے گووند خشتی نے طبلہ کی بدولت ضلع بھر میں شہرت حاصل کی