اسپورٹس کے کھلاڑیوں میں آج کل مہارت کی کمی ہے، ہم کوئی کاروبار کرتے ہیں تو جلد ہی کروڑ پتی بننے کا خواب دیکھتے ہیں،ایسا ہی باسکٹ بال کا حال ہوگیا ہے ، اس کھیل میں موجودہ نسل بہت تیز بھاگنا چاہتی ہے،اور اس کے نتیجے میں وہ کامیابی سے محروم رہ جاتی ہے،لیکن ایسا نہیں ہے،اس کھیل میں کامیابی کے لئے محنت درکار ہے،کھلاڑی جب خود کو محنت و مشقت کے مراحل سے گزارتا ہے تب کہیں جاکر وہ ایک مثالی کھلاڑی بنتا ہے،مذکوہ باتیں 80 سال کے ارجن ایوارڈ یافتہ بھارتی باسکٹ بال ٹیم کے سابق کیپٹن عباس منتشر زیدی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہی۔
Basketball players need to work hard, Abbas Zaidi
عبّاس منتشر زیدی ممبئی کے ناگپاڑہ علاقے میں مقیم ہیں،9 برس کی عمرسے باسکٹ بال کھیلنا شروع کیا،اور 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے قومی اور بین القوامی سطح پر باسکٹ بال کھیلنے میں نمایاں کردار ادا کیا،انہوں نے ملک اور معاشرے کے لئے اپنی زندگی کا اہم حصہ وقف کیا۔
1969 میں وہ ایشین باسکٹ بال چیمپین شپ کے دوران بھارتی ٹیم کے کیپٹن تھے،انہیں یہ معلوم تھا کے باسکٹ بال کھیلنے کے لئے کتنی محنت کی ضرورت پڑتی ہے ،اور انہوں نے کھیل میں نمایاں اور غیر معمولی کردار سے لوگوں کے دل جیت لئے تھے،1970 میں انھیں ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا،اس لئے انہوں نے باسکٹ بال پر پرنسپل آف باسکٹ بال نام کی کتاب لکھی ہے۔
باسکٹ بال کی بدولت ہی انہیں ریلوے میں 42 برسوں تک ملازمت ملی تھی،آج بھی یہ باسکٹ بال سمیت متعدد اسپورٹس سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں تاکہ اس سے کھلاڑیوں کو حوصلہ ملے،انہوں نے مزید کہا کہ باسکٹ بال اب بدل چکا ہے،حالات پہلے کے مقابلے بالکل مختلف ہیں، بھارت کی شناخت بین القوامی سطح پر ہو رہی ہے ،پہلے کے مقابلے اب سہبولتیں زیدہ مل رہی ہیں،اس لئے ہمیں آج کھلاڑیوں سے کئی ساری امیدیں وابستہ ہیں۔
مزید پڑھیں:ارجن ایوارڈ یافتہ بھارتی باسکٹ بال کے کپتان وشیش بھرگوانوشی سے خصوصی گفتگو
ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقہ ناگپاڑہ ایک وقت ایسا تھا جہاں فٹ بال باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی کثیر تعداد تھی-