سامنا کے اداریہ میں کانگریس قیادت کی صلاحیت پر سوال کھڑے کیے گئے ہیں۔ اداریہ میں لکھا ہے کہ یو پی اے کا مضبوط ہونا وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ کیسے ہوگا،۔
یو پی اے کی قیادت کون کرے گا یہ تنازعہ کا بحث کا موضوع نہیں ہے۔ بلکہ موضوع یو پی اے کو مضبوط بنانا ہے اور بی جے پی کے سامنے چیلینج کے طو پر اسے کھڑا کرنا ہے۔
سامنا میں لکھا گیا کہ 'کانگریس پارٹی یہ سب کرنے میں مضبوط ہے تو اس کا استقبال ہے۔ اداریہ میں کہا گیا کہ کانگریس کے لیڈر ہریش راوت نے کہا ہے کہ اتحاد میں سب سے بڑی پارٹی کے پاس ہی قیادت ہوتی ہے تو انہوں نے صحیح بولا ہے لیکن یہ بڑی پارٹی زمین پر نہ چلے بلکہ لوگوں کی امید ہے کہ وہ ایک بڑی اڑان بھرے۔
سامنا میں مزید کہا گیا کہ 'بے شک کانگریس آج تک بڑی پارٹی ہے لیکن بڑی مطلب کس شکل کی؟ کانگریس کے ساتھ ہی ترنمول اور اے آئی ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں پارلیمنٹ میں ہیں اور یہ ساری پارٹیاں بی جے پی کی مخالف ہیں۔ ملک بھر کے اپوزیشن پارٹیوں میں ایک خالی پن بن گیا ہے اور بکھرے ہوئے اپوزیشن کو ایک جھنڈے کے نیچے لانے کی امید کی جائے تو کانگریس کے دوستوں کو اس پر حیرت کیوں ہو رہی ہے۔
اداریہ میں مزید لکھا گیا کہ ملک میں بی جے پی مخالف عدم اطمینان کی چنگاری بھڑک رہی ہے۔ لوگوں کو تبدیلی چاہیے ہی چاہیے اس لئے متبادل قیادت کی ضرورت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کون دے سکتا ہے ؟سیدھا اور تازہ مثال دیکھیئے ۔ کرناٹک میں 2023 میں اسمبلی کے انتخاب ہو رہے ہیں اس انتخاب کے تعلق سے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوےگوڑا نے بڑا اعلان کیا ہے ۔ 2023کا انتخاب جنتا دل سیکولر مطلب جے ڈی ایس آزاد طور سے اپنی طاقت پر لڑنے والی ہے ۔کبھی دیوے گوڑا کانگریس کے ساتھی تھے کرناٹک میں ان کے بیٹے کمار سوامی نے کانگریس کے ساتھ مل کر سرکار بنائی لیکن آج دونوں پارٹیوں میں دراڑ ہے ۔ دیوے گوڑا کی پارٹی کی جانب سے الگ سے انتخاب لڑنے کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی ہوگا ۔ک
رناٹک ایسی ریاست ہے جہاں مہاراشٹر کی طرح کانگریس گاؤں گاؤں تک پھیلی ہے ۔ کرناٹک میں کانگریس کو اچھی قیادت ملی ہوئی ہے یہ کانگریس کے اچھے مستقبل والی ریاست ہے لیکن ووٹوں کی تقسیم کے کھیل میں بی جے پی فائدہ ہو جاتا ہے اس لئے دیوے گوڑا اور کمارا سوامی کو سمجھانے کا کام کون کرے گا ۔
سامنا نے لکھا ہے کہ آزادی کی لڑائی میں اور آزادی کے بعد ملک کو بنانے میں کانگریس کا بڑا ہاتھ رہا ہے لیکن تب کانگریس کے سامنے کوئی متبادل نہیں تھا اپوزیشن صرف نام کی ہی تھی ۔ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی جیسے مقبول ترین قیادت سے ملک کو فائدہ تھا اور کانگریس اگر کسی پتھر کو بھی کھڑا کر دیتی تو لوگ اسے خوب ووٹ دیتے تھے اس دوران کانگریس کے خلاف میں بولنا جرم سمجھا جاتا تھا ۔ کانگریس کو دلت ،مسلمان اور او بی سی کی اچھی حمایت حاصل تھی ۔کانگریس ایک نظریہ تھا اور کانگریس کے لیے لوگ لاٹھیاں کھانے کو بھی تیار تھے آج کانگریس کے حمایت والی ووٹوں کے بکس پہلے جیسے نہیں رہے ہیں ۔
اداریہ میں لکھا گیا کہ ریاستوں کی مقامی پارٹیوں نے اپنی ایک جگہ بنائی ہے، حیدراباد میونسپل انتخاب کے نتیجے بی جے پی مخالفین کی آنکھیں کھولنے والا ہے ۔ ایک وقت ایسا تھا جب ملک کے مغربی ریاستوں میں کانگریس بہت مضبوط پارٹی تھی آج تصویر بدل چکی ہے ۔ عیسائی اور آدیواسی آبادی کی اکثریت کے باوجود کچھ ریاستوں میں بی جے پی کو بڑی کامیابی مل رہی ہے۔