ریاست مہاراشٹر کے اقلیتی شہر مالیگاؤں کو گہوارہ ادب کہا جاتا ہے۔ صنعتِ پارچہ بافی کیلئے ریاست بھر میں مشہور اس شہر میں متعدد گوہرِ نایاب موجود ہیں جنہوں نے اپنی ادبی و علمی تصنیفات سے ملک بھر میں اپنی صلاحیتوں کا ڈنکا بجایا اور شہر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ایسی ہی چنندہ شخصیات میں ارشد مینا نگری کا نام بھی شامل ہے۔ جن کے فکر وفن اور ادبی تخلیقات پر دنیا بھر کے قلمکاروں نے تجزیاتی و تنقیدی مقالے تحریر کئے ہیں۔
ملک کے نامور ادبی و علمی رسائل میں ارشد مینانگری پر متعدد توصیفی و اعترافی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ان کی تحریر کردہ نظموں اور اشعار کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی کیا جاچکا ہے۔ارشد مینانگری بلاشبہ شہر مالیگاؤں ہی نہیں بلکہ بھارت کا ایک عظیم سرمایہ ہیں۔ارشد مینانگری کی پیدائش 3 مارچ 1942 مینانگر ( دھرن گاؤں) ضلع جلگاؤں مہاراشٹر میں ہوئی۔ اور ابتدائی تعلیم سے لیکر دسویں باریں جماعت کی تعلیم فائنل مینانگر (دھرن گاؤں) ضلع جلگاؤں میں ہوئی۔
ارشد مینانگری پیشے سے ایک معلم ہیں لیکن مطالعے کے شوق نے انھیں ادبی دنیا کی اس گہرائیوں میں پہنچا دیا جہاں تک پہنچنے کے لیے ایک لمبی مدت تک کے مطالعے اور عمر درکار ہوتی ہے۔اس تعلق سے انہوں نے بتایا کہ وہ دس سال کی عمر سے ہی شاعری کررہے اور کم عمری میں ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شاعروں کے تعلق سے اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شاید وہ کوئی ماورائی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے آپ میں گم رہتے ہیں، من موجی ہوتے ہیں، بے پروا ہوتے ہیں، مگر ارشد مینانگری کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے 'شاعر' تو ہم جیسے ہی ہوتے ہیں عام سے، گھر بار ، دوست احباب، رشتے ناطے ، رنج و غم ، مصائب وآلام ، ذمہ داریاں سب کچھ وہی مگر فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ اپنے شعروں میں سمیٹ لیتے ہیں۔
یہی اشعار جب ظاہر ہوتے ہیں تو ایک شخص کی آپ بیتی جگ بیتی لگتی ہے اور ایک شعر سے بھی کئی افراد کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہوجاتی ہے انسانی جذبوں کی عکاسی کرنے میں ارشد مینانگری کو کمال حاصل ہے اور کوسادگی کی تاثریت کے ساتھ ذائقہ عطا کرتے ہیں۔
ہم کو دے کر پیٹ بھر کم کھاتی ہے ماں
بھوکی اپنے واسطے رہ جاتی ہے ماں
ایسی اور بھی کئی مثالیں ان کے کلام میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔جہاں شاعر، دنیا اور زندگی اپنے مختلف رنگوں میں خود کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا نظارہ ان کے اس اولین شعری مجموعے میں کیا جا سکتا ہے۔ ارشد مینانگری کی شاعری کئی دہائیوں پر محیط ہے مگر 'ماں دل، حب الوطنی ان کے شعری سفر کی پہلی منزل ہے۔
ایسے شاعر کو دیکھ کر مسرت ہوتی ہے جو نہ صرف اردو کا چراغ جلائے رکھنے کی سعی کررہے ہیں بلکہ اپنے بزرگوں کی خدمات کو دنیائے ادب میں پیش کررہے ہیں یہ خدمت یہ وابستگی یہ انہماک قابل صد تحسین اس لیے بھی ہے کہ ایک شاعر بے نیاز جس نے زندگی کی الجھتی ڈوروں کے ساتھ شعروں کو سنوارا ہے۔