صبا خان پرچم نام کی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ہیں، تنظیم کا مقصد ہے کہ وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، اس کے ساتھ ساتھ با اثر شخصیات اور ایسی شخصیات جنہوں نے لک و ملت کے لیے نہ صرف اپنے جان کی بازی لگائی بلکہ انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ وہ الگ بات ہے کہ تاریخ کے اوراق میں ان کے خدمات کو فراموش کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ایسی شخصیات کے بارے میں میں کسی کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔ صبا خان نے غیر سرکاری تنظیم پرچم کے بینر تلے ایسی ہی50 بااثر شخصیات کی زندگی ان کے عظیم کارناموں پر روشنی ڈالی ہے، اور اس کا مجموعہ ایک کتاب کی شکل میں میں عوام کے سامنے پیش کیا جس کا نام ہے "دی کوئین ،دی کورٹیئین ، دی ڈاکٹر ،دی رائیٹر ہے۔Books on Muslim Freedom Fighters on display
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے صبا خان نے کہا ہے کہ پچاس مسلم بااثر شخصیات کے بارے میں میں معلومات اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے مواد اکٹھا کرنے کیلئے ملک اور بیرون ممالک کی خاک چھاننی پڑیا اُسکے بعد یہ مجموعہ مکمل کیا گیا ہے۔ صبا خان کی تحریر کردہ کتاب"دی کوئین ،دی کورٹیئین ، دی ڈاکٹر ،دی رائیٹر "کو لے کر انہوں نے کہاکہ دور حاضر میں مسلمانوں کو لے کر جو نظریہ ملک میں گردش کر رہا ہے یا ملک کے مسلمانوں کو جس نظریے سے دیکھا جا رہا ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کتاب ان لوگوں کو پڑھنی چاہیے۔ ملک کی آزادی اور دوسرے میدان میں مسلمانوں نے کیا نمایاں کردار ادا کیا ہے اس بارے میں تفصیلات اسی کتاب میں موجود ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ تاریخ میں مسلمانوں کے اس عظیم کارنامے کو کیسے پوشیدہ رکھا گیا
صبا خان کہتی ہیں کہ ساری تفصیلات اور یہ سارے کارنامے تو بہت پہلے منظر عام پر آنے چاہیے، میں حیران ہوں یہ سب کچھ اس دور میں ممکن ہو سکا جس دور میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے عزیز النساء نام کی ایک طوائف کا ذکر کیا انہوں نے اس کردار کو کو اپنی کتاب کی زینت بنائی ہے۔ اپنی کتاب میں ان کی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ اور بتایا کہ ان کے کوٹھے پر جب انگریز حکمران آتے تھے تو اس دوران جو بھی بات چیت ہوتی تھی وہ آزادی کے متوالوں تک پہنچا دی جاتی تھی، ایک طوائف کے ذریعے ملک کی آزادی میں یہ کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،عوام کو پتہ ہی نہیں ہے اس لیے یہ جاننے کے لیے لیے عزیز النساء کی زندگی کیا تھی ملک کی آزادی میں عزیز النساء نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ جاننے کے لیے کتاب ضرور پڑھنی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممبئی کے باندرہ علاقے میں یاور جنگ کے نام سے ایک فیزیو تھراپی سنٹر ہے، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اس ادارے میں یاور جنگ کے تعلق سے کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ ضرروت اس بات کی ہے کہ ان کے عظیم کارناموں کے بارے می عوام کو روشناس کرایا جائے، ایسے ہی فاطمہ بھی ہیں جن کے بارے میں میں ریسرچ کی جائے تو کچھ ملتا ہی نہیں۔
صبا خان نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کو لے کر جو سوچ بنی ہوئی ہے خاص کر بھارت میں اس سوچ کو بدلنے میں یہ کتاب اب بہت ہی اہم کردار ادا کرے گی اس لئے نہ صرف ان لوگوں کو جو مسلمانوں کے خلاف گھناؤنی سوچ رکھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن لیکن ان واقعات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔
مزید پڑھیں:شہید ہیمنت کرکرے کی زندگی پر مبنی کتاب منظرعام پر