ریاست مہاراشٹر کے شہر ممبئی کے ماہم علاقے میں مقیم 75 برس کی زبیدہ یعقوب کھنڈوانی اپنی حیات کو 75 بہاریں دیکھنے کے باوجود انکے کارنامے ایک عمدہ مثال بن کے ملک ملت کے لئے مشعل راہ ہے۔
زبیدہ یعقوب کھنڈوانی ان دِنوں صوفیزم کو لیکر موضوع بحث ہیں یہ اس وقت اس پر ریسرچ کر رہی ہیں ان کا مقصد ہے کہ اس عمر میں وہ معاشرے کو اسکی وجہ سے کچھ نیا دے سکیں جس سے عوام کے لیے اصلاح فلاح و بہبود کے راستے ہموار ہو سکی اسی لئے اس عمر میں انہوں نے اس پر ڈاکٹریٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیشک زبیدہ کی عمر 75 برس ہے لیکن انکے پاس ڈگریوں کی کوئی کمی نہیں ہے انکی جھولی میں علم کا ذخیرہ ہے جسے یہ عوام کے لیے صرف کرنا چاہتی ہیں کیونکہ محض 17 برس کی عمر میں ہی یہ ازدواجی زندگی سے منسلک ہو گئیں۔
حالانکہ ایک مخیر خاندان سے اُنکا تعلق تھا شادی کے سبب اپنی تعلیم مکمل کرنے میں قاصر رہیں لیکن شادی کے بعد انکے شوہر نے انہیں تعلیم جاری رکھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا۔ انہونے نہ صرف گریجویشن مکمل کیا بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ بی ایڈ اور ایم اے کی تعلیم بھی مکمل کی۔
زبیدہ کا کہنا ہے کہ 'جب وہ ایم اے کر رہی تھی تو اُنہیں صوفی ازم میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی اور اس پر مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا لیکن بیماری اور شوہر کی موت کی وجہ سے انکا یہ خواب ادھورا رہ گیا تھا جو اب پورا ہوتے نظر آرہا ہے۔'
زبیدہ کے صاحبزادے سہیل کھنڈوانی کہتے ہیں کہ 'والدہ نے ایل ایل بی کی بھی تعلیم حاصل کی ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب والدہ کے ہمراہ بیٹا بیٹی ساتھ میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔'
ہمت اور حوصلے کے دمیان زبیدہ نے اپنی بیماری اور گھریلو مصروفیات کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا یہی سبب رہا کہ اُنہونے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ معاشرے کو ایک نئی راہ دکھانے کا بھی کام کیا کیونکہ ہندوستان میں ایک ہزار سال سے زیادہ کے ارتقاء میں تصوف کی ایک تاریخ ہے۔ تصوف کی موجودگی ایک سرفہرست ادارہ رہا ہے جس نے پورے ایشیاء میں اسلام کی رسائی کو بڑھایا ہےآٹھویں صدی کے اوائل میں اسلام کے داخلے کے بعد دہلی سلطنت کی 10 ویں اور 11 ویں صدی کے دوران اور اس کے بعد باقی ہندوستان تک صوفی تصوف روایات زیادہ واضح ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پٹنہ: اکبر الہٰ آبادی کی غزلیہ و صوفیانہ شاعری پر توسیعی خطبہ
ابتدائی دہلی سلطنت میں چار تاریخی طور پر علیحدہ علیحدہ خاندانوں کا ایک اتحاد ترک اور افغانی ملکوں کے حکمرانوں پر مشتمل تھا۔ اس فارسی اثر و رسوخ نے جنوبی ایشیاء کو اسلام، صوفی فکر، ہم آہنگی والی اقدار، ادب، تعلیم اور تفریح سے دوچار کیا جس نے آج ہندوستان میں اسلام کی موجودگی پر پائیدار اثرات مرتب کیے ہیں۔
صوفی مبلغین، سوداگر اور مشنری بھی سمندری سفر اور تجارت کے ذریعہ ساحلی بنگال اور گجرات (بھارت) میں آباد ہوئے۔