ETV Bharat / state

Sudhindra Kulkarni On Sangh Parivar: سنگھ پریوار ملک کی تقسیم اور مسلم تاریخ کو مسخ کررہا ہے، سدھیندر کلکرنی - مسلمان کسمپرسی کی حالت سے گزررہے ہیں

سنگھ پریوار Sangh Parivar ملک کی تقسیم اور مسلم تاریخ کو مسخ کررہا ہے، جب کہ ملک کے لیے صرف مسلمان ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ دوسرے بھی اس کے لیے قصوروار ہیں، لیکن تاریخ کو مسخ کرکے اقلیتی فرقے کی جدوجہد کو ختم کرکے ملک میں نفرت پھیلائی جارہی ہے، جوکہ تشویشناک ہے، ان خیالات کا اظہار بزرگ صحافی، مفکر اور سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے مشیر خاص سدھیندرکلکرنی نے کیا ہے۔

سنگھ پریوارملک کی تقسیم اور مسلم تاریخ کو مسخ کررہا ہے: سدھیندر کلکرنی
سنگھ پریوارملک کی تقسیم اور مسلم تاریخ کو مسخ کررہا ہے: سدھیندر کلکرنی
author img

By

Published : Feb 19, 2022, 9:03 PM IST

سدھیندرکلکرنی Sudhindra Kulkarni نے کہا کہ سنگھ پریوار جس انداز میں تاریخ کو مسخ کررہا ہے۔ وہ تشویشناک ہے، کیونکہ نہ سرسید اور نہ ہی علامہ اقبال نے دوقومی نظریہ پیش کیا تھا بلکہ اقبال نے ہمیشہ انڈیا میں ہی ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کی وکالت کی تھی تاکہ ایک دوسرے کی شناخت برقرار رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ ملک کی تقسیم کے لیے مسلمان ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ کئی اور لوگ بھی اس کے قصوروار ہیں۔ آرایس ایس کو مطالعہ کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں گیارہ سوسال۔قدیم تاریخ میں دونوں فرقوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ جسے مذموم طریقے سے ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔

سدھیندرکلکرنی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ دورہ پاکستان کے موقع پروہاں بھی اے ایم یو کے سابق طلباء سے ملاقات ہوئی جوکہ ادارے کے ساتھ وہی جذبہ رکھتے ہیں، جو یہاں کے علیگ کا ہے۔ اس لیے ہندپاک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دونوں ممالک کے علیگ کو آگے آنا چاہئیے۔ تاکہ بھائی چارہ اور اتحاد کے لیے کام کیا جائے اوربرصغیر کی ترقی کے لیے مشترکہ کوشش ہو۔

انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے کہا کہ مسلمان اس ملک کے باشندے ہیں اور یہ۔ کہنا ٹھیک نہیں کہ مسلمان مرچکے ہیں، اگر اس ملک میں مسلمان مرگیا تو بھارت کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔

مسلمان کسمپرسی کی حالت سے گزررہے ہیں اور حالت دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔ ہماری لڑائی ہندوؤں سے نہیں بلکہ کے فرقہ میں سرگرم انتہا پسندوں سے ہے۔

اس موقع پر سابق ممبر راجیہ سبھا محمد ادیب نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کی مشترکہ وراثت کو برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری شناخت کو مسخ کیاجارہا ہے جوکہ ایک تشویشناک ہے۔ لیکن امید ہے کہ یہ وقتی بحران ہے اور ایسے عناصر پنپ نہیں پائیں گے۔

محمد ادیب نے اترپردیش کی پولیس کے حوالے سے کہا کہ آج کی یہ پولیس بجرنگ دل کی ایک ریجمنٹ بن چکی ہے اور پولیس افسران اور اہلکار اقلیتی فرقے کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دلت فرقے نے امپاورمنٹ پایا ہے۔ لیکن اس لیے اپنی قوم سے مایوسی ہوتی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وجہیہ الدین اے ایم یو پر کتاب لکھ کر ایک تاریخ مرتب کی ہے۔ انہیں علم ہونا چاہئیے کہ اے ایم یو ہر ایک علیگ کے دل میں بستا ہے اور اسے نکالا نہیں جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نےکئی واقعات پیش کیے۔

ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام نے کہا کہ ان حالات میں ہم فرقہ پرستوں سے واضح طورپر کہنا چاہتے ہیں کہ ملک پر مسلمانوں کا حق زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے تقسیم کے موقع پر یہاں رہنے کا انتخاب کیا تھا اور پاکستان نہیں گئے۔

انہوں نے سرسید کے بارے میں کہا کہ انہوں نے اے ایم یو کرکے خود کو زندگی جاوید کر کیا ہے کیونکہ اگر آج بھی، اگر کسی چھوٹے سے گاؤں اور دیہات میں بھی کوئی معمولی نوعیت کاتعلیمی ادارہ بنایا جاتا ہے تو اس کے بانی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ یہاں کے سرسید ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ ہمیں مدارس کی خدمات کوبھی نہیں بھلا یا جانا چاہیے اور دارالعلوم دیوبند، ندوۃ اور بریلی کی دینی خدمات انجام دی ہیں۔

انہوں نے یہ درد پیش کیاکہ کسی شعبے میں کام کے دوران غلطی ہو نا لازمی ہے، لیکن اپنے ہی لوگوں کی جانب سے منتظمین کو ہراساں کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔
آئی پی ایس افسر عبدالرحمن نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو سبھی بحران کا سبب قرار دیا اور کہا کہ اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا ہے کہ مسلمان ہی 1857 کی بغاوت یا پہلی جنگ آزادی کے لیے ذمہ دار تھے، اس سبب برطانوی حکومت کے عتاب کا شکار بنے۔انہوں نے مسلمانوں کو اس بغاوت کے سبب ملازمت سے بے دخل کیاگیا اور ان کی بغاوت کو کچل دیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے دو ایسے ادارے ہیں۔ جن کی بقا نہایت ضروری ہے۔ ان کے اقلیتی کردار کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس معاملہ کو نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز ایجوکیشن کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے۔

سی اے اے اور این آرسی کے لیے عہدہ سے استعفی دینے والے افسر عبدالرحمن نے کہا کہ سابق ایچ آرڈی منسٹر ارجن سنگھ نے ملک میں اے ایم یو کے پانچ کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مرشدآباد، مالاپورم اور کشن گنج میں ان کا قیام عمل میں آیا جبکہ مالیگاؤں یا اورنگ آباد، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں حکومت نے جگہ دینے میں کوتاہی برتی ہے۔ ہمیں اب اس چلینج کو ہاتھ۔میں۔لینا چاہئیے اور وقت کے ساتھ ترقی کرنے کے چلینج کو بھی ہاتھوں میں لینا ہے۔'

اس سے قبل صحافی سمیع بوبیرے، سابق ایم ایل سی مظفر حسین،سعید خان نے بھی خطاب کیا، نظامت طاہر اشرفی نے کی اور ابتداء میں وجہیہ الدین نے اے یو این میں اپنے تین سالہ دور اور وہاں سے گھر جانے کا احوال بیان کیا۔ جبکہ آخر میں اسلام جمخانہ کے صدر ایڈووکیٹ یوسف ابراہانی نے مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔ اس جلسہ میں شہر اور بیرونی شہر سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔

سدھیندرکلکرنی Sudhindra Kulkarni نے کہا کہ سنگھ پریوار جس انداز میں تاریخ کو مسخ کررہا ہے۔ وہ تشویشناک ہے، کیونکہ نہ سرسید اور نہ ہی علامہ اقبال نے دوقومی نظریہ پیش کیا تھا بلکہ اقبال نے ہمیشہ انڈیا میں ہی ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کی وکالت کی تھی تاکہ ایک دوسرے کی شناخت برقرار رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ ملک کی تقسیم کے لیے مسلمان ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ کئی اور لوگ بھی اس کے قصوروار ہیں۔ آرایس ایس کو مطالعہ کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں گیارہ سوسال۔قدیم تاریخ میں دونوں فرقوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ جسے مذموم طریقے سے ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔

سدھیندرکلکرنی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ دورہ پاکستان کے موقع پروہاں بھی اے ایم یو کے سابق طلباء سے ملاقات ہوئی جوکہ ادارے کے ساتھ وہی جذبہ رکھتے ہیں، جو یہاں کے علیگ کا ہے۔ اس لیے ہندپاک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دونوں ممالک کے علیگ کو آگے آنا چاہئیے۔ تاکہ بھائی چارہ اور اتحاد کے لیے کام کیا جائے اوربرصغیر کی ترقی کے لیے مشترکہ کوشش ہو۔

انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے کہا کہ مسلمان اس ملک کے باشندے ہیں اور یہ۔ کہنا ٹھیک نہیں کہ مسلمان مرچکے ہیں، اگر اس ملک میں مسلمان مرگیا تو بھارت کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔

مسلمان کسمپرسی کی حالت سے گزررہے ہیں اور حالت دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔ ہماری لڑائی ہندوؤں سے نہیں بلکہ کے فرقہ میں سرگرم انتہا پسندوں سے ہے۔

اس موقع پر سابق ممبر راجیہ سبھا محمد ادیب نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کی مشترکہ وراثت کو برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری شناخت کو مسخ کیاجارہا ہے جوکہ ایک تشویشناک ہے۔ لیکن امید ہے کہ یہ وقتی بحران ہے اور ایسے عناصر پنپ نہیں پائیں گے۔

محمد ادیب نے اترپردیش کی پولیس کے حوالے سے کہا کہ آج کی یہ پولیس بجرنگ دل کی ایک ریجمنٹ بن چکی ہے اور پولیس افسران اور اہلکار اقلیتی فرقے کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دلت فرقے نے امپاورمنٹ پایا ہے۔ لیکن اس لیے اپنی قوم سے مایوسی ہوتی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وجہیہ الدین اے ایم یو پر کتاب لکھ کر ایک تاریخ مرتب کی ہے۔ انہیں علم ہونا چاہئیے کہ اے ایم یو ہر ایک علیگ کے دل میں بستا ہے اور اسے نکالا نہیں جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نےکئی واقعات پیش کیے۔

ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام نے کہا کہ ان حالات میں ہم فرقہ پرستوں سے واضح طورپر کہنا چاہتے ہیں کہ ملک پر مسلمانوں کا حق زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے تقسیم کے موقع پر یہاں رہنے کا انتخاب کیا تھا اور پاکستان نہیں گئے۔

انہوں نے سرسید کے بارے میں کہا کہ انہوں نے اے ایم یو کرکے خود کو زندگی جاوید کر کیا ہے کیونکہ اگر آج بھی، اگر کسی چھوٹے سے گاؤں اور دیہات میں بھی کوئی معمولی نوعیت کاتعلیمی ادارہ بنایا جاتا ہے تو اس کے بانی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ یہاں کے سرسید ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ ہمیں مدارس کی خدمات کوبھی نہیں بھلا یا جانا چاہیے اور دارالعلوم دیوبند، ندوۃ اور بریلی کی دینی خدمات انجام دی ہیں۔

انہوں نے یہ درد پیش کیاکہ کسی شعبے میں کام کے دوران غلطی ہو نا لازمی ہے، لیکن اپنے ہی لوگوں کی جانب سے منتظمین کو ہراساں کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔
آئی پی ایس افسر عبدالرحمن نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو سبھی بحران کا سبب قرار دیا اور کہا کہ اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا ہے کہ مسلمان ہی 1857 کی بغاوت یا پہلی جنگ آزادی کے لیے ذمہ دار تھے، اس سبب برطانوی حکومت کے عتاب کا شکار بنے۔انہوں نے مسلمانوں کو اس بغاوت کے سبب ملازمت سے بے دخل کیاگیا اور ان کی بغاوت کو کچل دیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے دو ایسے ادارے ہیں۔ جن کی بقا نہایت ضروری ہے۔ ان کے اقلیتی کردار کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس معاملہ کو نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز ایجوکیشن کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے۔

سی اے اے اور این آرسی کے لیے عہدہ سے استعفی دینے والے افسر عبدالرحمن نے کہا کہ سابق ایچ آرڈی منسٹر ارجن سنگھ نے ملک میں اے ایم یو کے پانچ کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مرشدآباد، مالاپورم اور کشن گنج میں ان کا قیام عمل میں آیا جبکہ مالیگاؤں یا اورنگ آباد، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں حکومت نے جگہ دینے میں کوتاہی برتی ہے۔ ہمیں اب اس چلینج کو ہاتھ۔میں۔لینا چاہئیے اور وقت کے ساتھ ترقی کرنے کے چلینج کو بھی ہاتھوں میں لینا ہے۔'

اس سے قبل صحافی سمیع بوبیرے، سابق ایم ایل سی مظفر حسین،سعید خان نے بھی خطاب کیا، نظامت طاہر اشرفی نے کی اور ابتداء میں وجہیہ الدین نے اے یو این میں اپنے تین سالہ دور اور وہاں سے گھر جانے کا احوال بیان کیا۔ جبکہ آخر میں اسلام جمخانہ کے صدر ایڈووکیٹ یوسف ابراہانی نے مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔ اس جلسہ میں شہر اور بیرونی شہر سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.