ممبئی: پرکاش امبیڈکر ونچت بہوجن اگھاڈی کے صدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے احتجاج کے لیے اُنہیں اجازت ملنے کے پیچھے کا اصل سبب یہ ہے کہ ابتک کسی نے پولیس یہ حکومت کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی کو فلسطین کہ مسلہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ ایک ملک کا ہے جہاں امن ضروری ہے۔۔۔اور اس امن کے لیے عوام کو اپنی بات رکھنے کی پوری آزادی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں میں ڈر کا ماحول ہے خوف کے اس عالم میں مسلمان احتجاج کرنے سے اسلئے گریز کرتا ہے کہ اُسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔اسی لیے ہمنے اس ڈر کو نکالنے لئے ہم نے یہ احتجاجی اجلاس منعقد کیا۔
پرکاش امبیڈکر نے کہ کئی لوگوں پر سوشل سائٹس پر اسٹیٹس اور فلسطین حمایت کے بینر رکھنے پر ایف آئی آر درج کی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہم وہی غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔اسلئے اب خاص کر کانگریسی رہنما جنہیں اس بات کی جانکاری ہے وہ جلد ہی یہ قرارداد یہ تجویز پیش کریں اور اسکے لیے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی نہیں۔ اس لئے اسرائیل اور فلسطین کے بیچ امن ہونا چاہیے اسکے لیے پیس فورس بھیجی جائے۔ یہ مطالبہ کرنا انکا کام ہے۔ حکومت اسے قبول کرتی ہے یہ نہیں یہ آگے پتہ چلے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر اورنگ آباد میں اجتماعی اذان کا اہتمام
آپکو بتا دیں کی اسی آزاد میدان میں سن 2011 برما کے مسلمانوں کی حمایت میں احتجاج کیا گیا تھا۔ لیکن احتجاج کی پشت پناہی میں فساد برپا لیا گیا۔ میڈیا کی او بی وین جلا دی گئی۔ اس معاملے میں رضا اکیڈمی اور معین اشرف سمیت 17 لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ اس واردات کے بات آزاد میدان میں اس طرح کے اجلاس، احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اب فلسطین کی حمایت میں اس احتجاجی ریلی کو لیکر پولیس کی جانب سے اجازت دینےکے بعد یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخری وانچت بہوجن آ گھاڈی کو ہیں یہ اجازت کیوں ملی جبکہ کی مسلم تنظیموں نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ لیکن انہی اجازت نہیں ملی۔