ETV Bharat / state

'جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات'

ریاست مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں میں واقع امپلائمینٹ سینٹر ندوی پارک میں گزشتہ روز 'جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات' کے عنوان پر ایک تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا جس میں سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔

جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات
جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات
author img

By

Published : Feb 7, 2021, 7:17 PM IST

مالیگاؤں میں امپلائمینٹ سینٹر ندوی پارک میں 'جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات' کے عنوان پر ایک تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا۔

پروگرام کی صدارت صدر مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کے بانی مولانا عبدالحمید ازہری نے کی جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا الیاس ندوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات کے نام سے پروگرام کا انعقاد

پروگرام میں مقررین نے کہا کہ 'کسی بھی ملک کی قومی تعلیمی پالیسی اس ملک کا مستقبل طے کرتی ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی جو قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی اس میں شہریوں کی زبان، ثقافت،شناخت اور مذہب کا خاص خیال رکھا گیا۔

ایک طویل عرصہ تک اسی روح کے ساتھ تعلیمی نظام چل رہا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حکومت کی سرپرستی میں قومی تعلیمی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

حکومت ہند کی جانب سے جو جدید تعلیمی پالیسی نافذ کی جارہی ہے اس کے خدشات اور خطرات سے آگاہ کرنے اور اس تعلیمی پالیسی کے تدارک کے لیے مسلمانوں کو مستقبل میں کیا لائحہ عمل طئے کرنا چاہیے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا الیاس ندوی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'حکومت ہند کی جانب سے جدید ایجوکیشن پالیسی 2020 نافذ کی جارہی ہے۔ اس پالیسی میں ایک خاص تہذیب فکر و اور نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھانا ہوتا تو تعلیم اور ان کی ترقی کے تعلق سے واضح منصوبے سامنے آتے لیکن اس ایجوکیشن پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ایک بڑی منصوبہ بندی کے تحت ملک میں رہنے والے مخلتف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں خاص نظریوں کو مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مولانا موصوف نے مزید کہا کہ خاص طور پر اس ایجوکیشن پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہیں بھی مسلمانوں کا نام لے کر ان کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کی بات نہیں کی گئی جبکہ سنسکرت زبان کے بولنے والے صرف 24 ہزار عوام کی اس زبان کو لازمی قرار دینے کی بات کہی گئی ہے نیز اردو زبان کا اس تعلیمی پالیسی میں ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

مولانا الیاس ندوی نے حکومت سے جدید تعلیمی پالیسی میں تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایسا بنایا جائے تاکہ ہر مذہب کی عوام کے مثبت ہو۔

اس پروگرام کی صدارت کر رہے مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کے بانی مولانا عبدالحمید ازہری نے مولانا الیاس ندوی کے اس جملہ پر روشنی ڈالی کہ 'اگر حکومت نہیں مانے گی تو ہم اپنے بچوں کو گھروں میں بٹھا لیں گے' اس ایک جملہ نے پورے ملک میں انقلاب برپا کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'حالات بہت تشویشناک ہیں ایسے میں مسلمانوں کو متحرک رہنے کی ضرورت ہے تب ہی ملک کا مستقبل مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگا۔

اس پروگرام میں شہر کے علماء کرام، اردو اسکولوں کے اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران و ماہرین تعلیم کے علاوہ مدارس کے طلباء نے شرکت کی۔

مالیگاؤں میں امپلائمینٹ سینٹر ندوی پارک میں 'جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات' کے عنوان پر ایک تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا۔

پروگرام کی صدارت صدر مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کے بانی مولانا عبدالحمید ازہری نے کی جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا الیاس ندوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

جدید تعلیمی پالیسی اور مستقبل کے خدشات کے نام سے پروگرام کا انعقاد

پروگرام میں مقررین نے کہا کہ 'کسی بھی ملک کی قومی تعلیمی پالیسی اس ملک کا مستقبل طے کرتی ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی جو قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی اس میں شہریوں کی زبان، ثقافت،شناخت اور مذہب کا خاص خیال رکھا گیا۔

ایک طویل عرصہ تک اسی روح کے ساتھ تعلیمی نظام چل رہا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حکومت کی سرپرستی میں قومی تعلیمی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

حکومت ہند کی جانب سے جو جدید تعلیمی پالیسی نافذ کی جارہی ہے اس کے خدشات اور خطرات سے آگاہ کرنے اور اس تعلیمی پالیسی کے تدارک کے لیے مسلمانوں کو مستقبل میں کیا لائحہ عمل طئے کرنا چاہیے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا الیاس ندوی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'حکومت ہند کی جانب سے جدید ایجوکیشن پالیسی 2020 نافذ کی جارہی ہے۔ اس پالیسی میں ایک خاص تہذیب فکر و اور نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھانا ہوتا تو تعلیم اور ان کی ترقی کے تعلق سے واضح منصوبے سامنے آتے لیکن اس ایجوکیشن پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ایک بڑی منصوبہ بندی کے تحت ملک میں رہنے والے مخلتف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں خاص نظریوں کو مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مولانا موصوف نے مزید کہا کہ خاص طور پر اس ایجوکیشن پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہیں بھی مسلمانوں کا نام لے کر ان کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کی بات نہیں کی گئی جبکہ سنسکرت زبان کے بولنے والے صرف 24 ہزار عوام کی اس زبان کو لازمی قرار دینے کی بات کہی گئی ہے نیز اردو زبان کا اس تعلیمی پالیسی میں ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

مولانا الیاس ندوی نے حکومت سے جدید تعلیمی پالیسی میں تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایسا بنایا جائے تاکہ ہر مذہب کی عوام کے مثبت ہو۔

اس پروگرام کی صدارت کر رہے مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کے بانی مولانا عبدالحمید ازہری نے مولانا الیاس ندوی کے اس جملہ پر روشنی ڈالی کہ 'اگر حکومت نہیں مانے گی تو ہم اپنے بچوں کو گھروں میں بٹھا لیں گے' اس ایک جملہ نے پورے ملک میں انقلاب برپا کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'حالات بہت تشویشناک ہیں ایسے میں مسلمانوں کو متحرک رہنے کی ضرورت ہے تب ہی ملک کا مستقبل مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگا۔

اس پروگرام میں شہر کے علماء کرام، اردو اسکولوں کے اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران و ماہرین تعلیم کے علاوہ مدارس کے طلباء نے شرکت کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.