بابری مسجد انہدام کیس میں 28 برسوں کے بعد لکھنو میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ، نرتیہ گوپال داس سمیت 32 ملزمین کو خصوصی جج ایس کے یادو نے متذکرہ ملزمین کے خلاف ثبوت کافی نہ ہونے کی وجہ سے باعزت بری کر دیا۔
عدالت کے اس فیصلے پر مہاراشٹر کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں سے گفتگو کی۔ اُنہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے ہم عدالتوں سے انصاف کی امید کیسے کے سکتے ہیں۔
ممبر آف راجیہ سبھا حسین دلوائی نے کہا 'بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے ملک گیر مہم چلائی تھی۔ رتھ یاترا نکالی گئی، فسادات شروع ہوگئے۔ جس میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا۔ 15 لاکھ افراد ایودھیا میں جمع ہوئے تھے۔ وہ کس کی سربراہی میں وہاں آئے تھے؟ صرف یہی نہیں بہت سارے لوگوں نے مسجد کو منہدم کرنے کے لئے درکار اوزار بھی استعمال کیے۔ اس کا ثبوت پورے ملک میں اخبارات اور نیوز چینلز کے ذریعہ دیکھا گیا ہے۔ حیران کن اور ناقابل فہم ہے کہ اس سازش میں ملوث ملزمان کو مضبوط شواہد نہ ہونے کی وجہ سے بری کردیا گیا'۔
راشٹروادی کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان و ممبئی صدر نواب ملک نے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے پر کہا 'ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر عدالت نے ملزمین کو رہا کردیا ہے، لیکن اگر آپ یوٹیوب پرچلے جائیں تو دنیا بھرکی ویڈیوز موجود ہیں۔ 6 دسمبر سے قبل ملک بھر میں ہونے والے پروگرام ہیں۔ انہیں بنیادوں پر مقدمہ تیار کیا گیا تھا۔ بالآخر یہ عدالت کا فیصلہ ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ عدالت کے اس فیصلے سے ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ عدالت سے اسی فیصلے کی توقع تھی'۔
یہ بھی پڑھیے
بابری مسجد انہدام میں ملوث تمام 32 ملزمین بری
مہا وکاس آگھاڑی میں اہم دوست پارٹی شیوسینا نے بابری کیس میں فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے شیوسینا کے ترجمان اور رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا 'عدالت نے اب فیصلہ سنایا ہے کہ بابری مسجد کے معاملے میں جو کچھ ہوا اس میں پہلے سے سازش نہیں کی گئی تھی۔ ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور دیگر سب کو بری کردیا گیا ہے۔ ہمیں بھی اسی فیصلے کی توقع تھی۔ اب ہمیں ان سب چیزوں کو پیچھے چھوڑنا چاہیے'۔
جمعیتہ العلمائے ممبئی کے صدر گلزار اعظمی نے نمائندہ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا 'آج انصاف کا خون ہوا، عدالت کا یہ کہہ کر ملزمین کو رہا کرنا کہ ان کے خلاف پیش کیے جانے والے ثبوت ناکافی ہیں'۔
انہوں نے حیر ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا 'لاکھوں کا مجمع، کلہاڑی، تلوار، دھار دار ہتھیار کا وہاں موجود ہونا کیا ثبوت نہیں ہے؟ اور وہ اخباری نمائندے جو برادران وطن تھے، جنہوں نے اپنی رپورٹنگ پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''ایک دھکا اور دو ،بابری مسجد توڑ دو‘‘ کون کہہ رہا تھا، وہاں پر کون اچھل اچھل کر کارسیوکوں کے حوصلوں کو بڑھاوا دے رہا تھا، کون کلہاڑی چلا رہاتھا، کون دھار دار ہتھیار سے مسجد کا ڈھانچہ توڑ رہا تھا یہ تمام باتیں اس وقت کے اخبارات، ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے کے باوجود عدالت کہتی ہے کہ ثبوت ناکافی تھے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اب اس ملک میں دلتوں اور مسلمانوں کو انصاف حاصل کرنا بہت دشوار ہے، آج آزاد بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا’’سیاہ‘‘ دن ہے'۔
رضا اکیڈمی کے بانی سعید نوری نےکہا 'بابری مسجد کو شہید کیا جانا جمہوریت میں جبر کی مثال ہے، ملزمین کی رہائی کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ فیصلہ سننے کے فوراً بعد ملزمین کا میڈیا کے سامنے کھلے عام اقرار جرم کرنا نظام انصاف کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ لگانا ہے'۔
انہوں نے مزیدکہا 'بابری مسجد کی شہادت کے ملزمین جانتے ہیں کہ طاقت اور اقتدار کا نشہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے اسی لیے عدلیہ کے فیصلے کی کھلے عام ہنسی اڑائی جا رہی ہے اور عدلیہ کے باہر آکر اپنے گھناونے جرم کا کھلے عام اتراف کیا جا رہا ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
بابری مسجد کیس: مسجد شہید کرنے سے قبل اور بعد میں کب کیا ہوا؟
سابق وزیر اقلیتی امور عارف نسیم خان نے کہا 'بابری مسجد سانحہ کے ملزمین کی رہائی کافیصلہ آیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ مودی اور امیت شاہ کی سی بی آئی نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران جو بھی ان کے پاس ثبوت تھے اسے جان بوجھ کر عدالت میں داخل نہ کرنے دیا جس کی وجہ سے ناکافی ثبوت کے بنا پر بی جی پی کے ان لیڈران کے لئے رہائی کا راستہ آسان ہوگیا۔ جبکہ 6؍دسمبر 1992؍ کے بابری مسجد سانحہ کو بھارت کے اخباری نمائندے، عدالت کے ججیس، تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ ساتھ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس دن ایودھیا میں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ ان تمام مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھاہے، اس کے باوجود بابری مسجد اور رام مندر کے کیس چلنے کے دوران 6؍ دسمبر 1992؍ کے اس سانحے پر سپریم کورٹ نے ناراضگی بھی جتائی اور آج اچانک عدالت کایہ فیصلہ آتا ہے کہ ناکافی ثبوت کی بنا پر ملزمین کو رہا کیا جاتا ہے تووہیں ملزمین کورٹ کے باہر آکر فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے توڑا ہے اور ہم نے تڑوایا ہے تو اس سے اس ملک کے آئین پر اس ملک کے آئین پر اور اس ملک کی سالمیت پر سب سے بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے'۔
وقف بورڈکے ممبر ایڈوکیٹ خالد بابو قریشی نےکہا '28 برسوں کے بعد آنے والے عدالت کےفیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں، سی بی آئی عدالت نے ناکافی ثبوت کی بنا پر تمام ملزمین کو باعزت بری کر دیا ہے۔ وہیں میں حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہوں کہ باعزت رہا کیے گئے ملزمین اصل مجرم نہیں ہیں تو اصل مجرموں کو گرفتار کر کے انہیں دستور ہند کے مطابق قرار واقعی سزادی جائے'۔