اگر مسلمان سیاسی طور پر متحد ہوتے تو آج ایسے حالات پیدا نہ ہوتے اور نہ ہی حقوق صلب کرنے کی کوئی جرت کرتا ۔مسلمانوں کو اپنے سیاسی وجود کو بچانے کے لیے ایک مرتبہ پھر ابابیلوں کی تاریخ دہرانی ہوگی ۔
جس طرح ابابیلوں کی سرسوں کے برابر کی ایک ایک کنکریوں نے ابرہہ جیسے ظالم کو نیست و نابود کر دیا ۔ اسی طرح مسلمان ایک ایک ووٹ کی طاقت سے غالب آ سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں ابابیل کی طرح متحد ہو کر کنکریاں گرانی ہوں گی۔
سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما او رمہاراشٹر کے نائب صدر آصف نظام الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ اگر ملک میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہوتی تو بابری مسجد کا فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہ آتا ۔
ہم عدالت کے فیصلے کا احترام تو کرتے ہیں مگر تمام ثبوتوں کے باوجود فیصلہ قانون کے برعکس آنا مسلمانوں کی سیاسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔
انتخاب کے وقت ووٹ لینے کے لیے مسلمانوں کے مبینہ ہمدرد بن کر اور انہیں گمراہ کرکے ان کے ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں جبکہ سبکدوش جج سے لے کر معتبر شخصیات فیصلے پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ جب سے بی جے پی زیر اقتدار آئی ہے ملک میں ایک عجیب ماحول رونما ہوا ہے ۔
صدیقی نے کہا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش جاری ہے اور مسلمانوں نے خانوں میں تقسیم ہو کر اپنی سیاسی طاقت کو منتشر کر دیا ہے ۔آج ان کا کوئی یارو مددگار نظر نہیں آ رہا ہے۔
ملک صرف واحد سماج وادی پارٹی ہی ہے جو مسلم مسائل پر مسلسل آواز اٹھاتی رہتی ہے ۔ حکومت حامی فسطائی طاقتیں سرگرم ہیں وہ جب جو چاہتی ہیں کرنے میں تاخیر نہیں کرتیں ، حکومت کا اس پر قدغن لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔جس قوم کا سیاست میں اثر نہیں ہوتا وہ قوم یوں ہی پریشان رہتی ہے ۔جیسے آج مسلمانوں کا سیاست میں کوئی مقام نہ ہونے کے سبب ان کی کوئی سماعت نہیں ہو رہی ہے ،وہ تقسیم ہو کر آج بے اثر ہو چکے ہیں ۔آج مسلمان اپنے ووٹوں کی قیمت کا احساس کر لے تو ابابیلوں کی کنکریوں کی تاریخ دہرا سکتے ہیں اور اسے کھویا ہوا وقار واپس مل سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی ہندو مسلم کی سیاست کرکے اکثریت کو گمراہ کر رہی ہے ۔اس کی عوام مخالف پالیسیوں کے سبب آج حالات یہ ہیں کی بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے مہنگائی کے عروج پر ہونے کے سبب عام لوگ پریشان ہیں ۔بیشتر آبادی غریبی کی شکار ہے ۔امیر مزید امیر ہوتے جارہے ہیں اور زندگی کا سارا لطف حاصل کر رہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی باگ ڈور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہونے سے غریبی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دلت و پسماندہ طبقہ اس بھاگ دوڑ میں بھٹک گیا ہے ۔ہندوستان کے شہریوں کیلئے سماجی و سیاسی برابری و معاشی انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔اقتدار سے منسلک افراد عوام کو ترقی و خوشحالی کے غلط اعداد شمار پیش کر رہے ہیں ۔بڑے بڑے صنعتی ادارے چھوٹے دوکانداروں و چھوٹی صنعتوں کی قبر کھود رہے ہیں ۔گولف کورس ،پانچ ستارہ ہوٹل ،واٹر پارک وغیرہ کو ترقی کا معیار بتایا جارہا ہے ۔جبکہ غذائی تحفظ ،پانی و بجلی کے بحران و قیمتوں میں اضافہ کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جارہا۔کسان جو کل آبادی کا دو تہائی ہے وہ خودکشی کے دہانے پر ہے ۔مقامی لوگوں کا روزگار چھین کر انہیں بے روزگار بنایا جا رہا ہے ۔خصوصی طور سے این آر سی کے بہانے مسلمانوں کو جلا وطن کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے ۔جب تک مسلمان سیاسی طور بیدار نہیں ہوگا اس کے حالات بہتر ہونے والا نہیں ہے ۔