معاملہ چونکہ شیعہ برادری سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس ملکیت کو فروخت کئے جانے بعد شیعہ برادری میں ناراضگی ہے۔
غیر قانونی طور پر فروختگی کے بعد یہ معاملہ وقف ٹریبنل میں پہنچا جہاں وقف نے اس سودے بازی کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اس پر کسی کی ذاتی ملکیت کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے اسے وقف کی ملکیت قرار دیا جس کے بعد ممبئی کے ایم آر اے مارگ پولیس تھانے میں اس کے ٹرسٹی بلڈر اختر حسن رضوی سمیت 2 لوگوں کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا گیا۔
اس معاملے میں سید وصی کا کہنا ہے کہ جب ایس بی یو ٹی کی تشکیل کی گئی اس دوران اس کے ٹرسٹیوں نے اسے یہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی تھی یہی وجہ رہی کہ اس کے ٹرسٹیوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی یہ امام باڑہ ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے وقف ٹریبونل میں اس سودے بازی کو لے کر آواز اٹھائی۔
سید وصی نے مزید کہا کہ 'وقف ٹریبونل نے جب اس ملکیت کو وقف کی تو اس کے بعد ٹرسٹیوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، انہوں نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ وقف کے فیصلے کو ہائی کورٹ بھی تسلیم کرے گی کیونکہ ہمارے پاس اس کے دستاویز اور شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جہاں گزشتہ 150 برسوں سے شیعہ برادری نوحہ خوانی ، ماتم اور محرم کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس معاملے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے میں اختر حسن رضوی(جن پر دھوکہ دہی کا الزام ہے) سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو امام باڑے کے سوال پر اختر حسن رضوی آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے ہمارے نمائندے کو دھمکیاں دی، یہی نہیں انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سوال کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہی جانچ بٹھا دیں گے۔
امام باڑہ کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ اسی زینبیہ کا ایک حصہ ہے جس کی تعمیر سنہ 1842 میں اودھ کے بادشاہ محمد علی شاہ نے کروائی تھی اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں ببر علی نام کے ملازم کو معمور کیا گیا تھا، اس لیے امام باڑے کو ببر علی کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے۔
سنہ 1856کے بعد یہاں سے عزا داری کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے، سنہ 1988 میں اختر حسن رضوی کو اس کی از سر نو تعمیر کرنے کے لیے کہا جس کے بعد ان کا اس پر قبضہ ہوا اور انہو ں نے اسے ذاتی ملکیت کی حیثیت سے ایس بی یو ٹی کو فروخت کر دیا۔
دارالحکومت ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے بھنڈی بازار کو ایس بی یو ٹی نے از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے چونکہ زینبیہ امام باڑہ اس سے متصل ہے اس لیے ایس بی یو ٹی کو اسے فروخت کر دیا گیا تا ہم اس خرید فروخت میں یہ بات بالائے طاق رکھ دی گئی کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جو شاید اب گلے کی ہڈی بنتے جا رہی ہے۔
فی الحال معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اب ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کی عدلیہ اس معاملے کو لے کر کیا فیصلہ سناتی ہے۔