ETV Bharat / state

ممبئی: زینبیہ امام باڑہ معاملہ، کل کورٹ میں سنوائی - زینبیہ امام باڑہ معاملہ

کل بامبے ہائی کورٹ میں ممبئی کی سب سے قدیم عبادت گاہ اور امام باڑہ زینبیہ کو لے کر سنوائی ہوگی جسے غیر قانونی طریقے سے سیفی برہانی اپ لفٹمینٹ ٹرسٹ (ایس بی یو ٹی) کو فروخت کر دیا گیا ہے۔

زینبیہ امام باڑہ
زینبیہ امام باڑہ
author img

By

Published : Jan 16, 2020, 5:58 PM IST

معاملہ چونکہ شیعہ برادری سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس ملکیت کو فروخت کئے جانے بعد شیعہ برادری میں ناراضگی ہے۔

زینبیہ امام باڑہ معاملہ، ویڈیو

غیر قانونی طور پر فروختگی کے بعد یہ معاملہ وقف ٹریبنل میں پہنچا جہاں وقف نے اس سودے بازی کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اس پر کسی کی ذاتی ملکیت کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے اسے وقف کی ملکیت قرار دیا جس کے بعد ممبئی کے ایم آر اے مارگ پولیس تھانے میں اس کے ٹرسٹی بلڈر اختر حسن رضوی سمیت 2 لوگوں کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا گیا۔

اس معاملے میں سید وصی کا کہنا ہے کہ جب ایس بی یو ٹی کی تشکیل کی گئی اس دوران اس کے ٹرسٹیوں نے اسے یہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی تھی یہی وجہ رہی کہ اس کے ٹرسٹیوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی یہ امام باڑہ ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے وقف ٹریبونل میں اس سودے بازی کو لے کر آواز اٹھائی۔

سید وصی نے مزید کہا کہ 'وقف ٹریبونل نے جب اس ملکیت کو وقف کی تو اس کے بعد ٹرسٹیوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، انہوں نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ وقف کے فیصلے کو ہائی کورٹ بھی تسلیم کرے گی کیونکہ ہمارے پاس اس کے دستاویز اور شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جہاں گزشتہ 150 برسوں سے شیعہ برادری نوحہ خوانی ، ماتم اور محرم کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔

اس معاملے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے میں اختر حسن رضوی(جن پر دھوکہ دہی کا الزام ہے) سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو امام باڑے کے سوال پر اختر حسن رضوی آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے ہمارے نمائندے کو دھمکیاں دی، یہی نہیں انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سوال کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہی جانچ بٹھا دیں گے۔

امام باڑہ کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ اسی زینبیہ کا ایک حصہ ہے جس کی تعمیر سنہ 1842 میں اودھ کے بادشاہ محمد علی شاہ نے کروائی تھی اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں ببر علی نام کے ملازم کو معمور کیا گیا تھا، اس لیے امام باڑے کو ببر علی کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے۔

سنہ 1856کے بعد یہاں سے عزا داری کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے، سنہ 1988 میں اختر حسن رضوی کو اس کی از سر نو تعمیر کرنے کے لیے کہا جس کے بعد ان کا اس پر قبضہ ہوا اور انہو ں نے اسے ذاتی ملکیت کی حیثیت سے ایس بی یو ٹی کو فروخت کر دیا۔

دارالحکومت ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے بھنڈی بازار کو ایس بی یو ٹی نے از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے چونکہ زینبیہ امام باڑہ اس سے متصل ہے اس لیے ایس بی یو ٹی کو اسے فروخت کر دیا گیا تا ہم اس خرید فروخت میں یہ بات بالائے طاق رکھ دی گئی کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جو شاید اب گلے کی ہڈی بنتے جا رہی ہے۔

فی الحال معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اب ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کی عدلیہ اس معاملے کو لے کر کیا فیصلہ سناتی ہے۔

معاملہ چونکہ شیعہ برادری سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس ملکیت کو فروخت کئے جانے بعد شیعہ برادری میں ناراضگی ہے۔

زینبیہ امام باڑہ معاملہ، ویڈیو

غیر قانونی طور پر فروختگی کے بعد یہ معاملہ وقف ٹریبنل میں پہنچا جہاں وقف نے اس سودے بازی کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اس پر کسی کی ذاتی ملکیت کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے اسے وقف کی ملکیت قرار دیا جس کے بعد ممبئی کے ایم آر اے مارگ پولیس تھانے میں اس کے ٹرسٹی بلڈر اختر حسن رضوی سمیت 2 لوگوں کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا گیا۔

اس معاملے میں سید وصی کا کہنا ہے کہ جب ایس بی یو ٹی کی تشکیل کی گئی اس دوران اس کے ٹرسٹیوں نے اسے یہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی تھی یہی وجہ رہی کہ اس کے ٹرسٹیوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی یہ امام باڑہ ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے وقف ٹریبونل میں اس سودے بازی کو لے کر آواز اٹھائی۔

سید وصی نے مزید کہا کہ 'وقف ٹریبونل نے جب اس ملکیت کو وقف کی تو اس کے بعد ٹرسٹیوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، انہوں نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ وقف کے فیصلے کو ہائی کورٹ بھی تسلیم کرے گی کیونکہ ہمارے پاس اس کے دستاویز اور شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جہاں گزشتہ 150 برسوں سے شیعہ برادری نوحہ خوانی ، ماتم اور محرم کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔

اس معاملے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے میں اختر حسن رضوی(جن پر دھوکہ دہی کا الزام ہے) سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو امام باڑے کے سوال پر اختر حسن رضوی آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے ہمارے نمائندے کو دھمکیاں دی، یہی نہیں انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سوال کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہی جانچ بٹھا دیں گے۔

امام باڑہ کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ اسی زینبیہ کا ایک حصہ ہے جس کی تعمیر سنہ 1842 میں اودھ کے بادشاہ محمد علی شاہ نے کروائی تھی اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں ببر علی نام کے ملازم کو معمور کیا گیا تھا، اس لیے امام باڑے کو ببر علی کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے۔

سنہ 1856کے بعد یہاں سے عزا داری کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے، سنہ 1988 میں اختر حسن رضوی کو اس کی از سر نو تعمیر کرنے کے لیے کہا جس کے بعد ان کا اس پر قبضہ ہوا اور انہو ں نے اسے ذاتی ملکیت کی حیثیت سے ایس بی یو ٹی کو فروخت کر دیا۔

دارالحکومت ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے بھنڈی بازار کو ایس بی یو ٹی نے از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے چونکہ زینبیہ امام باڑہ اس سے متصل ہے اس لیے ایس بی یو ٹی کو اسے فروخت کر دیا گیا تا ہم اس خرید فروخت میں یہ بات بالائے طاق رکھ دی گئی کہ یہ وقف کی ملکیت ہے جو شاید اب گلے کی ہڈی بنتے جا رہی ہے۔

فی الحال معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اب ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کی عدلیہ اس معاملے کو لے کر کیا فیصلہ سناتی ہے۔

Intro:کل ممبئی ہائی کورٹ میں ممبئی کی سب سے قدیم عبادت گاہ اور امام باڑا زینبیہ کو لیکر سنوائی ہو گی ...جسے غیر قانونی طریقے سے ایس بی یو ٹی کو فروخت کر دیا گیا ہے ..معاملہ چونکہ شیعہ برادری یسے جڑا ہوا ہے ..اس لئے اس ملکیت کو فروخت کئے جانے بعد شیعہ برادری میں غم اور غصہ دونو ں پایا جا رہا ہے Body:...Conclusion:معاملہ وقف ٹریبنل میں پہنچا جہاں وقف نے اس سودے بازی کو غیر قانونی بتاتے ہوئے ..اس پر کسی کی ذاتی ملکیت کا دعوه خارج کرتے ہوئے اسے وقف کی ملکیت قرار دیا.جس کے بعد ممبئی کے ایم آر اے مارگ پولیس تھانے میں اس کے ٹرسٹی بلڈر اختر حسن رضوی سمیت ٢ لوگوں کے خلاف دھوکہ ڈھی .فرضی واڈے کی دفات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ...

بائٹ ..ایڈوکیٹ آصف نقوی

سید وصی کا کہنا ہے کہ جب ایس بی یو ٹی کی تشکیل کی گئی تو اس دوران اس کے ٹرسٹیوں نے اسے یہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی ..یہی وجہ رہی کہ اس کے ٹرسٹیوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی یہ امام باڑا ہے ہی نہیں ...اسی وجہ سے ہم نے وقف ٹریبنل میں اس سودے بازی کو لیکر آواز اٹھائی ...وصی کہتے ہیں کہ وقف ٹریبنل نے جب اس ملکیت کو وقف کی ملکیت تسلیم کر لیا تو اس کے بعد ٹرسٹیوں نے ہائی کورٹ میں دستک دی ..لیکن ہمیں پوری امید ہے کہ وقف کے فیصلے کو ہائی کورٹ بھی تسلیم کریگی ...کیونکہ ہمارے پاس اس کے دستاویز اور شواہد موجود ہیں جو یہ سبط کرتے ہیں کہ یہ وقف کی ملکیت ہے ..جہاں پچھلے ١٥٠ برس سے شیعہ برادری نوحہ خوانی ، ماتم اورمحرم کی مجلسوں کا اہتمام کرتے چلے آ رہے ہیں..

بائٹ .. عرضداشت سید وصی

ہم نے اس بارے میں ملزم اختر حسن رضوی سے انکا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن امام باڑے کے سوال سے ملزم رضوی آگ بگولہ ہو گئے ..انہونے دھمکانا شروع کر دیا ...یہی نہیں انہونے کہا کہ سوال کرنے کے جرم میں وہ سوال کرنے والے کے خلاف ہی جانچ بیٹھا دینگے...ملزم رضوی کی اس دھمکی کا خیال نہ کرتے ہوئے بھی ہم نے سوالات جاری رکھے ...

بائٹ ..ملزم اور ٹرسٹی اختر حسن رضوی

امام باڑا کی تاریخ بہت قدیم ہے ..یہ اسی زینبیہ کا ایک حصہ ہے ..جس کے تعمیر سن ١٨٤٢ میں اودھ کے بادشاہ محمد علی شاہ نے کی تھی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہاں ببر علی نام کے ملازم کو معمور کیا گیا تھا اس لئے امام باڈے کو ببر علی کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے ..١٨٥٦ کے بعد یہاں سے وظعداری کا سلسلہ قائم ہوا جو آج تک چل رہا ہے ..سن١٩٨٨ء میں ملزم اختر حسن رضوی کو اس از سر نو تعمیر کرنے کے لئے کہا جس کے بعد انکا اس پر قبضہ ہوا اور انہو ں نے اسے ذاتی ملکیت کی حیثیت سے ایس بی یو ٹی کو فروخت کر دیا ..

بائٹ ...سید محمد رضوان علاقائی مکین

ممبئی کے بھنڈی بازار مسلم اکثریتی علاقے کو ایس بی یو ٹی نے از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ..چونکہ زینبیہ امام باڈا اس سے متصل ہے ...اس لئے ایس بی یو ٹی کو اسے فروخت کر دیا گیا ..لیکن اس خرید فروخت میں یہ بات بالاۓ طاق رکھ دی گئی کہ یہ وقف کی ملکیت ہے ..جو شاید اب گلے کی ہڈی بنتے جا رہا ہے ..فلحال معاملہ ممبئی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ..اب ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کی کورٹ اس معاملے کو لیکر کیا فیصلہ سناتی ہے ...
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.